’جگہ جگہ لاشیں دیکھیں‘، زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں امریکہ سے ڈی پورٹ ہوئے ہندوستانیوں کی انتہائی غمگین و دلخراش کہانیوں کا انکشافات

حیدرآباد (دکن فائلز) گزشتہ روز امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم 100 سے زائد ہندوستانی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے کچھ ہندوستانی شہریوں نے وطن پہنچنے پر تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ امریکی فوجی جہاز کے ذریعہ تذلیل آمیز سلوک کے ساتھ ڈی پورٹ ہو کر وطن واپس آنے والے ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کو خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑا جن میں کبھی ان کو کئی کیلومیٹر پیدل چلنا پڑا اور کبھی لاشوں سے واسطہ پڑا۔ ملک واپس پہنچنے والے 104 افراد میں سے کچھ نے اپنی آپ بیتی سنائی، جو انتہائی دل دہلادینے والی ہے۔

امریکہ کا فوجی جہاز 104 انڈینز کو لے کر بدھ کو امرتسر پہنچا تھا۔ ان میں 33 کا تعلق ہریانہ اور گجرات، 30 کا پنجاب اور باقی تین کا تعلق مہاراشٹر اور اتر پردیش سے ہے جبکہ دو چندی گڑھ سے ہیں۔ ان میں 19 خواتین اور 13 بچے بھی شامل ہیں جن کی عمریں چار سے سات سال کے درمیان ہیں۔

جسپال سنگھ بھی انہی میں سے ایک ہیں جن کا دعویٰ ہے سفر کے دوران ان کے ہاتھ پاؤں اس طرح سے باندھے گئے کہ حرکت نہیں کر سکتے تھے اور ان کو امرتسر ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد ہی کھولا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹریول ایجنٹ نے یقین دلایا تھا کہ قانونی طریقے سے امریکہ بھجوایا جائے گا اور 30 لاکھ روپے لیے۔ ’مجھے چھ ماہ برازیل میں رہنا پڑا اور 24 جنوری کو امریکہ کی سرحد پر سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا۔‘
ڈی پورٹ ہونے والوں میں شامل ایک لڑکے کے والد کنوبھائی پٹیل کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک مہینہ قبل اپنے دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے گئی تھی۔ ان کے مطابق ’مجھے نہیں معلوم کہ یورپ پہنچنے کے بعد اس نے کیا مںصوبہ بندی کر رکھی تھی، آخری بار 14 جنوری کو بات ہوئی تھی۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ امریکہ کیسے پہنچی۔‘
پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ میں بہتر مستقبل کے لیے قرض لیے تھے اور انہوں نے ایجنٹس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پنجاب کے ہوشیار پور کے ہرویندر سنگھ کا کہنا تھا کہ امریکہ بھیجنے والے نے ان کو ورک ویزہ دینے کے بدلے 42 لاکھ روپے لیے تھے۔ آخری وقت پر ان کو بتایا گیا کہ ویزہ نہیں پہنچ سکا اور پھر دہلی سے قطر کے جہاز پر بٹھایا گیا اور وہاں سے برازیل کی پرواز پر سوار کرایا گیا۔ برازیل میں بتایا گیا کہ ایک اور پرواز کے ذریعے وہاں سے لے جایا جائے گا مگر ایسی کوئی پرواز تھی ہی نہیں۔ اس کے بعد ٹیکسیوں کے ذریعے کولمبیا پہنچے اور پھر پانامہ اور پھر بتایا گیا کہ بحری جہاز کے ذریعے امریکہ لے جایا جائے گا لیکن وہاں کوئی جہاز موجود ہی نہیں تھا۔ ’اس کے بعد سے ہماری ’ڈنکی‘ کا سفر شروع ہوا جو دو روز تک جاری رہا۔‘ دشوارگزار پہاڑی راستوں سے گزرنے کے بعد سنگھ اور ان کے ساتھ موجود دوسرے افراد کو بتایا کہ ان کو ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے میکسیکو بارڈر تک لے کر جائیں گے۔ چار گھنٹے تک سفر کرنے کے بعد کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا اور باقی تیراکی کرتے ہوئے جنگل تک پہنچے، جہاں ایک اور شخص بھی دم توڑ گیا۔ ’ہمارے پاس تھوڑے سے چاول تھے، جن کی بدولت کئی روز تک زندہ رہے۔‘

دارا پور سے تعلق رکھنے والے سکھپال سنگھ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندر میں 15 گھنٹے تک سفر کیا اور 40 سے 45 کلومیٹر تک پہاڑوں اور گہری کھائیوں میں پیدل سفر کیا۔ ان کے مطابق ’اگر کوئی زخمی ہو جاتا، اس کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا، ہمیں راستے میں جگہ جگہ کئی ایسی ہی لاشیں دکھائی دیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس سفر کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا اور امریکہ میں داخل ہونے سے قبل ہی میکسیکو میں ہم کو گرفتار کر لیا گیا۔ ’ہمیں 14 روز تک تاریک کوٹھڑیوں میں رکھا گیا، اس دوران کہیں روشنی دکھائی نہیں دی۔‘ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لیے غلط راستوں کا انتخاب کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا کرنے سے گریز کریں، کیونکہ جانے والے ہزاروں افراد اب بھی ایسے حالات میں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں