بلڈوزر کلچر غیرجمہوری اور ظالمانہ طرز عمل، حکومت باز رہے: مسلم پرسنل لا بورڈ

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے ملک میں اسرائیلی طرز پر بلڈوزر کلچر کو نافذ کیا جارہا ہے جو نہایت افسوسناک اور ملک کے لئے رسوا کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی شبیہہ ایک ایسے جمہوری ملک کی رہی ہے، جس میں ہر شہری کو پُر امن احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومت کا رویہ آمریت پسند ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی شہروں میں مسلمانوں اور دلتوں کے مکانات معمولی الزامات کی بنیاد پر زمین دوز کر دیے گئے، ایک شخص مدتوں محنت کر کے اور پسینہ بہا کر اپنا مکان بناتا ہے، مکان اس کے والدین، بچے، بچیاں اور بعض اوقات نابالغ بھائی بہن سبھوں کی اس میں رہائش ہوتی ہے، اور اس کو ایک مشترکہ ملکیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اب اگر اس گھر کا ایک بالغ یا نابالغ لڑکا سچ مچ کہیں پتھراؤ کرنے میں شریک ہوگیا ہو تو کیا حکومت کے لئے یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ایسی سزا دے، جسے پورے خاندان کو بھگتنا پڑے، بوڑھے ماں باپ اور معصوم بچے سب اس سزا کی لپیٹ میں آجائیں۔

مولانا نے کہا کہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ مکان کی تعمیر کی منظوری حاصل نہ کرنے کی وجہ سے مکان کو گرایا گیا ہے، محض کھوکھلا دعویٰ اور جھوٹا بہانہ ہے، سوال یہ ہے کہ گھر کی تعمیر سے لے کر گھر گرانے کا واقعہ پیش آنے تک حکومت نے اس سلسلہ میں باز پُرس کیوں نہیں کی؟ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ جس وقت تعمیر کا کام ہو رہا تھا، اسی وقت تعمیر کو روکا جاتا، پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک گلی میں فرض کیجئے پچاس مکانات ہیں، مسلمانوں کے بھی اور ہندوؤں کے بھی، اُن میں سے کسی نے بھی تعمیر کی اجازت حاصل نہیں کی تھی لیکن خاص طور پر اُن میں سے دو مکانات کو نشانہ بنا کر منہدم کیا جاتا ہے، جنہوں نے پولس کے دعویٰ کے مطابق پتھر بازی کی تھی، کیا یہ عمل قانون کے مطابق ہے؟

خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ایک ہی طرح کی غلطی پر ایک کو سزا دینا اور دوسرے کو نہیں دینا، یہ کھلے طور پر انصاف کا قتل ہے، پھر حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ کسی کو مجرم سمجھتی ہے تو اس کو عدالت میں جانے اور صفائی پیش کرنے کا موقع دے، حکومت مدعی بھی ہو اور خود ہی فیصلہ بھی کر لے، کیا اس کا کوئی جواز ہو سکتا ہے؟ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی نا منصفانہ حرکت اور غیر جمہوری طرز عمل سے باز رہے، اور دنیا کی نظر میں وطن عزیز کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں بھائی چارہ کے بجائے نفرت کا ماحول نہ بنایا جائے، اگر واقعی حکومت چاہتی ہے کہ تمام تعمیرات اجازت کی حدود میں ہوں تو لوگوں کو ایک موقع دے کہ وہ جرمانہ ادا کر کے اجازت حاصل کریں، اور نئی تعمیرات کے سلسلہ میں سختی سے اپنے اصول کو نافذ کرے اور اس میں کوئی امتیاز نہ برتے، سبھوں کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر حکومت کے کسی محکمہ نے خلاف اصول تعمیر کرائی ہو تو اسے بھی منہدم کرایا جائے، یا اس سے بھی جرمانہ وصول کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں