کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول، مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا شریعت کی غلط تشریح کی گئی۔ عدالت نے علمائے کرام، طلاق اور پرسنل لا پر کیا تھا تبصرہ (پوری خبر پڑھیں)

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ اسلام میں شوہر و بیوی کے درمیان علیحدگی کے لئے تین طریقے متعین ہیں اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن وحدیث کے مطابق اول: طلاق، جس کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے، دوسرے: خلع، جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق واقع ہوتی ہے، اس صورت میں بھی بیوی یکطرفہ طور پر خلع نہیں لے سکتی، یہ بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے۔البتہ اس میں شوہر و بیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے، تیسری صورت فسخ نکاح کی ہے، جو عدالت کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اگر بیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو اب کورٹ کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر کورٹ نے محسوس کیا کہ واقعی عورت مظلوم ہے تو نکاح فسخ کر سکتا ہے اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے تو درخواست رد کر سکتا ہے۔

مولانا خالف سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ قرآن وحدیث سے زوجین کے درمیان علیحدگی کی یہی تین صورتیں ثابت ہیں لہٰذا خلع میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے، ہاں اگر شوہر نے ایک معاہدہ کے تحت بیوی کو حق دیا ہو کہ وہ اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے تو اس صورت میں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ تفویض طلاق ‘‘ کہتے ہیں، کیرالا ہائی کورٹ میں ابھی جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس ڈائس نے خلع کی جو تشریح کی ہے، اس کے مطابق بیوی یکطرفہ طور پر خلع لے سکتی ہے، یہ نہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے اور نہ معتبر علماء وفقہاء نے اس قسم کی بات کہی ہے۔

واضح رہے کہ قبل ازیں کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے طلاق، قلع، علمائے کرام اور پرسنل لا پر تبصرہ کیا تھا۔ طلاق سے متعلق معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کیرالا ہائیکورٹ نے تبصرہ کیا کہ ’جن علما کے پاس کوئی قانونی جانکاری یا علم نہ ہو تو ان پر کسی نکتہ میں رہنمائی کےلیے انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا کہ عدالت غیرتعلیم یافتہ جو قانونی علم سے ناوقف ہوں ایسے علما کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی‘۔

عدالت نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بیشک اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں علما کی رائے عدالت کے لیے اہم ہے اور عدالت کو ان کے عقائد و خیالات کا احترام کرنا چاہیے‘۔

کیرالہ ہائی کورٹ نے مسلم خواتین کو حق طلاق کے معاملے میں ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مسلمان عورتیں قلع لے سکتی ہیں اگرچہ کہ ان کے شوہروں کی رضامندی نہ ہو۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اسلامی شریعت بیوی کو شوہر سے قلع لینے کے حق کو تسلیم کرتی ہے تاہم اگر شوہر راضی نہ ہونے پر بھی عورت طلاق کی درخواست دے سکتی ہے۔

معزز ججس محمد مشتاق اور سی ایس دیاس پر مشتمل بنچ نے اس معاملہ میں 59 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ ایک مسلمان عورت کسی بھی وقت اپنی شادی کا رشتہ توڑ سکتی ہے جبکہ شریعت اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح اگر شوہر راضی ہو یا نہ ہو طلاق لینے کا حق عورت کو حاصل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں