حیدرآباد کا شمار عالمی سطح پر بڑے شہروں میں ہوتا ہے جسے ’منی انڈیا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ علمی و تہذیبی اعتبار سے بھی شہر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ حیدرآباد کی بریانی بھی کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے جبکہ حیدرآبادی حلیم کو جی آئی ٹیگ کا اعزاز حاصل ہوا تھا تاہم اب حیدرآباد کی ایک اور پہچان ’لاڈ بازار‘ میں ہاتھ سے بنائی جانے والی چوڑیوں کو بھی جی آئی ٹیگ (جغرافیائی اشاریہ کا نشان) سے نوازا گیا جس کے بعد لاڈ بازار کو عالمی سطح پر ایک خاص مقام حاصل ہوا ہے، اب یہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی چوڑیوں کو جی آئی کا درجہ مل چکا ہے۔
حیدرآبادی حلیم کو پہلی مرتبہ 2010 میں جغرافیائی شناخت حاصل ہوئی تھی تاہم اب 12 سال بعد لاڈبازار میں ہاتھ سے بنائی جانے والی چوڑیوں کو ایک خاص پہنچان حاصل ہوئی ہے۔ حیدرآباد کی چوڑیوں کا جی آئی کی ٹیگ کی حیثیت سے باضابطہ طور پر اندراج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انیسویں صدی میں بعض یورپی ممالک کو خیال آیا کہ وہ جو بہترین خوراک یا مشروبات تیار کرتے ہیں انھیں تحفظ حاصل ہونا چاہیے تاکہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا انھیں بنا یا فروخت نہ کرسکے۔ تاہم بیسوی صدی میں فرانس وہ پہلا ملک تھا جس نے اس خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جی آئی سسٹم متعارف کروایا۔
اب جی آئی ٹیگ ’ایگریمنٹ آن ٹریڈ ریلیٹڈ ایسپکٹس آف انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ (ٹی آر آئی پی ایس) کے تحت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) جاری کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیسی مصنوعات کے لیے کئی ملکوں کا اپنا جی آئی ٹیگ کا نظام بھی ہے۔ رفتہ رفتہ بین الاقوامی جی آئی ٹیگ کے حصول سے پہلے کسی چیز کے لیے اندرون ملک جی آئی ٹیگ حاصل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
اگر کوئی ملک جی آئی ٹیگ کے لیے درخواست دیتا ہے تو دوسرے ملکوں کے پاس اس پر اعتراض کے لیے تین ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مدت کے دوران اگر اعتراض سامنے آ جائے تو معاملہ ڈبلیو ٹی او کے پاس چلا جاتا ہے جو ٹی آر آئی پی ایس کے تحت کارروائی کر سکتی ہے۔
جی آئی ٹیگ کا مقصد آج بھی وہی ہے۔ یعنی اشیاء کا معیار برقرار رکھنا اور نقلی اشیاء کی فروخت روکنا، مصنوعات بنانے والوں کے مفادات کا تحفظ اور صارفین کے لیے معیاری چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔