اسرائیل کی حمایت پر بائیڈن انتظامیہ سے مستعفی 12 افسران نے امریکی پالیسی پر سوالات اٹھا دئے

(ایجنسیز) غزہ میں تقریباً نو ماہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے صدر جو بائیڈن کی حمایت نے امریکی انتظامیہ کے کم از کم نو اہلکاروں کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکی صدر نے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

دوسری جانب غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں پر اپنی تنقید اور انکلیو میں انسانی امداد کو فروغ دینے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ نے حمایت کی تردید کی ہے۔ صحت کے حکام کے مطابق انکلیو پر اسرائیل کے حملے میں تقریباً 38,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مستعفی ہونے والے امریکی حکام یہ ہیں:
العربیہ اردو کی رپورٹ کے مطابق محکمۂ داخلہ کی معاون خصوصی مریم حسنین نے منگل کو ملازمت چھوڑ دی۔ انہوں نے بائیڈن کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اسے “نسل کشی کو ممکن بنانے والی” اور عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک قرار دیا۔

سٹیسی گلبرٹ جنہوں نے محکمۂ خارجہ کے بیورو آف پاپولیشن، ریفیوجیز اینڈ مائیگریشن میں خدمات انجام دیں، مئی کے آخر میں ملازمت چھوڑ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کانگریس کو دی گئی انتظامیہ کی ایک رپورٹ پر استعفیٰ دیا جس میں ان کے مطابق جھوٹ بولا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ کے لیے انسانی امداد کو روک نہیں رہا۔

یو ایس ایڈ کے ٹھیکیدار الیگزینڈر سمتھ نے مئی کے اواخر میں سینسرشپ کا الزام لگاتے ہوئے استعفیٰ دے دیا جب امریکہ کی غیر ملکی امدادی ایجنسی نے فلسطینیوں میں ماں اور بچوں کی اموات پر ان کی پریزنٹیشن کی اشاعت منسوخ کردی۔ ایجنسی نے کہا کہ پریزنٹیشن مناسب جائزے اور منظوری سے نہیں گذری تھی۔

مئی میں للی گرین برگ کال مستعفی ہونے والی پہلی یہودی سیاسی ملازم بن گئیں جنہوں نے محکمۂ داخلہ میں چیف آف سٹاف کی معاونِ خصوصی کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے دی گارجین میں لکھا، “ایک یہودی کے طور پر میں غزہ کی تباہی کی حمایت نہیں کر سکتی۔”

محکمہ خارجۂ کی عربی زبان کی ترجمان ہالہ رارِت نے اپریل میں ریاست ہائے متحدہ کی غزہ پالیسی کی مخالفت میں اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے یہ بات اپنے لنکڈ ان پیج پر لکھی۔

اینیل شیلن نے مارچ کے آخر میں محکمۂ خارجہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے سی این این کے ایک مضمون میں لکھا کہ وہ ایسی حکومت کی خدمت کرنے سے قاصر تھیں جو “اس طرح کے مظالم کو ممکن بناتی ہے۔”

فلسطینی نژاد امریکی طارق حبش نے جنوری میں محکمۂ تعلیم کے دفتر برائے منصوبہ بندی میں معاونِ خصوصی کا عہدہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں ہونے والے مظالم پر “آنکھیں بند” کر رکھی تھیں۔

امریکی فوج کے ایک میجر اور دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار ہیریسن مان نے نومبر میں غزہ پالیسی پر استعفیٰ دے دیا تھا اور مئی میں اپنی وجوہات کے ساتھ منظر عام پر آئے تھے۔

محکمۂ خارجہ کے ادارہ برائے سیاسی عسکری امور کے ڈائریکٹر جوش پال اکتوبر میں سب سے پہلے اعلانیہ استعفیٰ دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ انہوں نے اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی “اندھی حمایت” کو اس کی وجہ قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں