شکر گذاری کا احساس اچھی صحت اور لمبی عمر کے حصول میں مددگار ثابت ہوتا ہے: تحقیق

(ایجنسیز) زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر شکر گزاری کا احساس طویل المعیاد بنیادوں پر صحت کو بہتر بناتا ہے۔ یہ بات امریکہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شکر گزاری کااحساس جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی مفید ہوتا ہے جبکہ قبل از وقت موت کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں شکر گزاری سے اوسط عمر پر مرتب ہونے والے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

اس مقصد کے لیے 69 سے 96 سال کی عمر کی لگ بھگ 50 ہزار خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ان خواتین سے 2016 میں شکر گزاری سے متعلق سوالنامہ بھروایا گیا اور یہ معلوم کیا گیا کہ وہ زندگی میں کس حد تک شکر گزار ہیں۔

اس ڈیٹا کا تجزیہ 3 سال بعد کیا گیا اور دریافت ہوا کہ جو افراد زیادہ شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں، ان میں امراض قلب، کینسر اور دماغی تنزلی کے امراض سمیت کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 9 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ 3 سال کے دوران 4608 خواتین کا انتقال ہوا جن میں سے 2153 ایسی خواتین تھیں جن کی جانب سے سب سے کم شکر گزاری کے احساس کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

1273 خواتین ایسی تھیں جن کی جانب سے معتدل شکر گزاری کے احساس کو رپورٹ کیا گیا گیا تھا جبکہ 1182 اموات ان خواتین کی تھیں جو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر بہت زیادہ شکر گزاری کا اظہار کرتی تھیں۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کسی حد تک جوان افراد کی جانب سے شکر گزاری کا اظہار کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح شادی شدہ افراد، سماجی یا مذہبی گروپس کا حصہ بننے والے یا اچھی صحت کے حامل افراد بھی زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں اچھی صحت یا سماجی تعلقات سمیت زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی ہمیں زیادہ شکر گزار بناتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شکر گزاری سے ہم پر بہت طاقتور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ڈپریشن سے بچنے میں مدد ملتی ہے، صحت بہتر ہوتی ہے اور قبل از وقت موت سے تحفظ ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو زندگی میں شکر گزار ہونا چاہیے تاکہ وہ اچھی صحت اور لمبی عمر کے حصول کو ممکن بناسکیں۔

محققین کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کی ٹھوس تصدیق ہوسکے۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل جاما سائیکاٹری میں شائع ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں