حیدرآباد (دکن فائلز) ہماچل پردیش میں ہندوتوا طاقتیں یکطرفہ طور پر مسجدوں کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کرکے امن و امان کو خراب کےلئے کوشاں نظر آرہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنجولی مسجد اور منڈی مسجد کے بعد اب تازہ طور پر ہندوتوا تنظیموں نے نور پور جامع مسجد کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کرکے اسے منہدم کرنے کےلئے انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
ضلع کانگڑا کے نور پور میں اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب کچھ ہندوتوا تنظیموں کے شدت پسند کارکنوں نے جامع مسجد میں کئے جارہے توسیعی کاموں کے خلاف ہنگامہ شروع کردیا۔ ہندوتوا تنظیموں نے مسجد میں غیر قانونی تعمیرات کا الزام عائد کیا ہے جبکہ مسجد انتظامیہ کی جانب سے اس کی تردید کی جارہی ہے۔ مسجد کمیٹی کے ذمہ دار کے مطابق مسجد کی تعمیر انتظامیہ کی اجازت سے کی گئی جبکہ اس میں اب مزید توسیع کی جارہی ہے۔ مسجد انتظامیہ نے ہندوتواتنظیموں اور میڈیا پر غیرضروری معاملہ کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کا الزام عائد کیا۔
نور پور سول اسپتال کے سامنے واقع جامع مسجد میں جاری تعمیرات کاموں کے خلاف ہندو تنظیموں کے ارکان نے میونسپل کونسل کی ایگزیکٹیو آفیسر کو میمورنڈم سونپا۔ اس معاملے پر میونسپل کونسل کی ایگزیکٹو آفیسر آشا ورما نے کہا کہ میمورنڈم میں الزام عائد کیا گیا کہ مسجد میں جاری تعیری کام غیرقانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ کی جانچ کی جائے گی اور قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔
ہندوتوا تنظیموں کے غیرضروری ہنگامہ پر مقامی مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کلاریون انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مقامی مسلمان کا احساس ہے کہ ان کے مذہبی اداروں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے حقوق و عقیدے پر چلنے کی آزادی کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، نور پور جامع مسجد کے ایک مصلی نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمیں نشانہ بنایا گیا ہو۔ پہلے مسجد سنجولی تھی اور اب یہ ہماری مسجد کے خلاف ہیں، ہم پر ان چیزوں کا الزام لگایا جا رہا ہے جو ہم نے نہیں کیے ہیں۔ یہ مسجد تمام ضروری ضابطوں کے مطابق بنائی گئی ہے اور اس کے باوجود ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ہمارا یہاں رہنا مشکل ہوگیا ہے‘‘۔
ایک اور مقامی شخص علی احمد نے کہا کہ “ہمیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے مجرم ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بے بنیاد الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ ہم ان ہنگاموں کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے مذہبی حقوق پر براہ راست حملہ ہے اور ہمارے پاس خاموشی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
علاقہ کے مسلمانوں نے کہا کہ “یہ صرف ایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہماری شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے”۔ ایک مقامی دکاندار عمران نے کہاکہ “ہم یہاں نسلوں سے رہ رہے ہیں، اور اب، اچانک، ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اپنی عبادت گاہیں بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہمارے مذہبی حقوق پر حملہ ہے‘‘۔