بشارالاسد کا تختہ الٹنے والے ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) ملک شام میں ابو محمد الجولانی کی قیادت میں اسلامی باغی اتحاد نے صدر بشارالاسد کا تختہ الٹ کر ان کے24 سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا ہے، 26 نومبر کو ادلب سے پیش قدمی کے بعد صرف 2 ہفتوں میں دمشق فتح کرکے باغیوں نے دنیا کو حیرانی میں مبتلا کردیا ہے۔

ہئیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے سربراہ ابو محمد الجولانی ،جو انتہاپسندانہ پس منظر کے حامل رہے ہیں، حالیہ دنوں میں انہوں نے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابومحمد الجولانی نے جمعہ کو امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی کارروائی کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنا ہمارا حق ہے۔

برطانوی جریدے گارجین کی رپورٹ کے مطابق ابو محمد الجولانی برسوں تک پس پردہ رہ کام کرتے رہے ۔ اب وہ بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دے رہے ہیں اور شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کو ملک کی خانہ جنگی میں پہلی بار حکومتی کنٹرول سے چھڑانے کے بعد برسرزمین نمودار ہو ئے ہیں۔

انہوں نے کئی سالوں سے جہادیوں کی جانب سے پہنی جانے والی پگڑی پہننا چھوڑ دی ہے اور اکثر اس کے بجائے فوجی وردیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ چہارشنبہ کو انہوں نے خاکی قمیض اور پتلون پہن کر حلب کے قلعے کا دورہ کیا اور اپنی سفید گاڑی کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا کر ہجوم میں سے گزرے۔

سنہ 2016 میں القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے کے بعد سے ابو محمد الجولانی نے خود کو زیادہ اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ ابھی تک تجزیہ کاروں اور مغربی حکومتوں کے درمیان شکوک و شبہات کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جو اب بھی ایچ ٹی ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم شمار کرتے ہیں۔

سیاسی اسلام کے ماہر تھامس پیریٹ کا کہنا ہے کہ’وہ ایک عملی بنیاد پرست ہیں’۔ پیریٹ نے جنگ کے اس دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’2014 میں، وہ اپنی بنیاد پرستی کے عروج پر تھے، جب وہ جہادی گروپ دولت اسلامیہ کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے ،اس کے بعد سے وہ اپنے بیانات میں نرمی لائے ہیں۔

ابومحمد الجولانی 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک خوشحال شامی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد پٹرولیم انجینئر تھےتھے، بعدا زاں 1989 میں ان کے خاندان کی شام واپسی ہوئی جہاں ان کی پرورش دمشق کے ضلع مززے میں ہوئی۔ 27 نومبر کو شروع کیے گئے حملے کے دوران انہوں نے اپنے اصل نام احمد الشرا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بیانات پر دستخط کرنا شروع کیے۔ 2021 میں امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے نام میں شامل لفظ’جولانی’شام کی سرحد واقع جولان کی پہاڑیوں سے تعلق رکھنے والی ان کی خاندانی جڑوں کا حوالہ ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 1967 میں اسرائیل کی جانب سے اس علاقہ پر قبضہ کے بعد ان کے دادا کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا، مڈل ایسٹ آئی نیوز ویب سائٹ کے مطابق 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جولانی پہلی بار جہادی سوچ کی طرف راغب ہوئے تھے۔ ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے حملہ آوروں کی تعریف جولانی کے جہاد سے تعارف کا سبب بنی جس کے بعد انہوں نے دمشق کے مضافات میں خفیہ خطبات اور پینل مباحثوں میں شرکت شروع کی، عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد انہوں نے لڑائی میں حصہ لینے کے لئے شام چھوڑ دیا۔

انہوں نے ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں عراق میں القاعدہ میں شمولیت اختیار کی اور بعدازاں امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد 5 سال تک قید بھی رہے، جس کی وجہ سے وہ جہادی تنظیم کی صفوں میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ 2011، میں حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تو وہ وطن واپس آئے اور القاعدہ کی شام میں شاخ جبۃالنصرہ کی بنیاد رکھی۔ 2013 میں انہوں نے ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا جو بعد میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے امیر بنے جبکہ جولانی نے القاعدہ کےاس وقت کے سربراہ ایمن الظواہری کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔

اپنے حامیوں کی نظر میں حقیقت پسند اور اپنے مخالفین میں موقع پرست تصور کیے جانے والے جولانی نے مئی 2015 میں کہا تھا کہ دولت اسلامیہ کے برعکس ان کا مغرب کے خلاف حملے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر اسد کو شکست دی جاتی ہے تو علوی اقلیت کے خلاف کوئی انتقامی حملے نہیں ہوں گے ،واضح رہے کہ بشارالاسد کے خاندان کا تعلق بھی علوی اقلیت سے ہے۔

بعدازاں ابو محمد الجولانی نے القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے اور دعویٰ کیا کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ مغرب کو ان کی تنظیم پر حملے کی وجوہات سے محروم رکھا جا سکے۔ پیریٹ کے مطابق، اس کے بعد سے انہوں نے ایک قابل اعتماد سیاستدان بننے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنوری 2017 میں، ابو محمد الجولانی نے شمال مغربی شام میں حریف اسلامی گروہوں پر مشتمل اتحاد ہئیت تحریر الشام( ایچ ٹی ایس) تشکیل دیا،جس کے نتیجے میں صوبہ ادلب کے ان حصوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا جو حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے۔

ایچ ٹی ایس نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں ایک سویلین حکومت تیار کی اور اپنے باغی حریفوں کو کچلتے ہوئے صوبہ ادلب میں ایک ریاست کی جھلک قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس پورے عمل کے دوران ایچ ٹی ایس کو عام شہریوں اور انسانی حقوق کے گروپس کی طرف سے مخالفین کے خلاف وحشیانہ زیادتیوں کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں