بڑی خبر: ہجومی تشدد اور گاؤ رکھشکوں کے خلاف عرضی پر سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کا انکار، کہا ’ججس دہلی میں بیٹھ کر نگرانی نہیں کرسکتے۔۔‘

حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ دہلی میں بیٹھے جج صاحبان ملک کے کونے کونے میں نہ گائے کی حفاظت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہجومی تشدد کے واقعات کو روک سکتے ہیں۔ دراصل نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے گاؤ رکھشکوں کے ذریعہ ملک بھر میں جاری ہجومی تشدد پر روک لگانے کی درخواست کی تھی، تاہم جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے یہ کہتے ہوئے کہ ’دہلی میں بیٹھ کر ہم ملک کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے مسائل کی نگرانی نہیں کر سکتے‘، عرضی کو سننے سے انکار کردیا۔

بنچ نے کہاکہ ’ہر ریاست کی صورتحال مختلف ہوتی ہے… کچھ ریاستوں میں، گائے کا گوشت کی کھپت ایک باقاعدہ عمل ہے‘۔ عدالت عظمیٰ نے اس درخواست پر سماعت کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ہجومی تشدد کے واقعات اور خاص طور پر گاؤ رکھشکوں کی جانب سے کئے جانے والے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ عرضی میں ہجومی تشدد کے واقعات میں مبینہ اضافہ بالخصوص گائے کی نگرانی کے معاملات میں مبینہ اضافہ پر سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل نظام الدین پاشا نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ جب پرائیویٹ افراد کو پولیس کو گاڑیاں ضبط کرنے اور مویشیوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے تو اس طرح پولیس اختیارات پرائیویٹ ایجنسیوں کو دیے جاتے ہیں۔ ریاستی مشینری کا رویہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کتنی بے شرمی ہے۔ اس عدالت سے کسی قسم کی نگرانی میں مدد ملے گی۔ سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ کے متاثرین کو یکساں معاوضہ دینے کا حکم دینے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ معاوضہ کے تعین عدالتوں یا حکام سے ان کے صوابدید کو چھیننے کے مترادف ہوگا۔ بنچ نے واضح کیا کہ متاثرہ شخص قانون کے مطابق مجاز حکام کے سامنے پیش ہو سکتا ہے۔ بنچ نے مزید کہا کہ ایسے مسائل پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

بنچ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے تحسین پونا والا کیس میں ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پہلے ہی تفصیلی ہدایات جاری کر دی ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستوں کو 2018 کے فیصلے میں جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔ بنچ نے کہا کہ اگر اس طرح کی کسی ہدایت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تو متاثرہ شخص کے پاس قانونی علاج موجود ہے۔

درخواست گزار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ نظام پاشاہ نے استدلال کیا کہ بعض ریاستوں میں گائے کے تحفظ کے قوانین کے پس منظر میں عدالت کی طرف سے پہلے جاری کردہ ہدایات کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ‘گاؤ رکھشکوں’ کے ذریعہ ہجومی تشدد کے واقعات ہورہے ہیں، اگر عدالت کی طرف اس معاملہ کی نگرانی کی جاتی ہے تو بہتر ہوگا۔

عدالت نے کہا کہ مجرمانہ واقعات پر کاروائی کرنا ریاست کا فرض ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئے۔ مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عرض کیا کہ مرکز نے بھارتیہ نیا سنہتا کے تحت ایک قانون متعارف کرایا ہے، جو ہجومی تشدد کے معاملہ میں سزا دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں