داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی نے جیل سے اپنے بیٹے کو خط لکھ کر ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین کی اور اپنے رب کے عظیم احسانات کا ذکر کیا۔
مولانا کا خط امت مسئلہ، خاصکر نوجوان نسل کےلیے مشعل راہ ہے۔
(اس خط کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ دوسروں تک مولانا کے پیغام کو پہنچایا جاسکے)
۔۔۔۔۔
پیارے بیٹے
السلامُ علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ
محبت نامہ جس کے لفظ لفظ سے بے لوث محبت ، خلوص اور والہانہ تعلق جھلک رہا تھا، پڑھ کر اپنے رب کے شکر کی توفیق ہوئی اور اندر سے فخر بھی کہ آپ جیسے دوست میرے رب نے عطاء فرمائے، مگر ساتھ میں آپ کے اضطراب سے حیرت بھی ہوئی!
میرے پیارے،
کافی زمانہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ایک چڑیا نے دوسری چڑیا سے سوال کیا نہ جانے کیوں یہ انسان پریشان رہتے ہیں،؟
دوسری چڑیا نے معصومیت سے جواب دیا کہ شاید ان کے، الله، نہیں ہوتے ہوں گے۔
میرے پیارے، آپ پریشان کیوں ہیں، الحمدللہ، الحمدللہ ،ہمارے تو الله ہیں، اور وہ الله جو ساری ماؤں کو ممتا دینے والے، رحمن ورحیم ہیں اور جنکی شان یہ ہے کہ ان کی رحمت ہر چیز ر وسیع ہے۔ کریم رحیم رب کے اور اس ذات عالی کے قربان جائیں کہ ساری حرام کاریوں اور حرام خور یوں کے باوجود عفو میں چھپا کر ہمیشہ ستاری فرماکر ہمیشہ ہمیشہ، پیدا ہونے سے لیکر آج تک ہر لمحہ شکر کی زندگی عطاء فرمائی ، اور صبر کا موقع ہی نہیں عطاء فرمایا بلکہ بلا استحقاق اور بلا طلب ہمیں انسان یعنی اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا اور پہلے نمبر پر رکھا اس کے بعد نہ صرف اسلام و ایمان جیسی نعمت عظمیٰ بھی بلا استحقاق وبلا طلب عطاء فرمائی، بلکہ امت محمدیہ کا فرد بناکر بلا اہلیت ایک نمبر پر رکھا، سارے نبیوں کے سردار اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم، کو ہمارا مقتدا نبی بناکر اول نمبر پر عطا فرمایا، ساری آسمانی کتابوں میں قرآن مجید جیسی اول نمبر کی کتاب کا حامل بناکر اول نمبر کی نعمت عظمیٰ بھی ہماری طلب اور اہلیت کے بغیر عطاء فرمائی۔
پوری دنیا کے ملکوں میں آب وہوا اور جغرافیہ کے علاوہ قرآن وسنت سے والہانہ تعلق رکھنے کے لحاظ سے بھی ایسے پیارے ملک میں پیدا فرمایا اور ہندوستان کے بھی دینی اور دنیاوی سب سے زرخیز علاقے، دو آبہ میں پیدا فرمایا، چاروں ائمہ میں سب سے معتدل اور آسان مسلک حنفی سے وابستہ فرمایا ساتھ میں، (تمسک بالکتاب والسنہ) مسلک کا فکر اور علم وعمل میں کمال اعتدال پر فائز، علم دین میں گیرائی اور وسعت کا تقویٰ، زہد، خودداری، استغنا ، اور تعلق مع الله، میں بہت ذمہ داری کے ساتھ ساری دنیا کے علماء سے ملاقات اور انکے حالات کے مطالعہ کی روشنی میں عرض کر رہا ہوں، پوری دنیا کے علماء میں امتیازی شان رکھنے والے حقیقی وارث انبیاء، علماء دیوبند، فکر ولی اللہی رکھنے والے مشاہیر سے وابستہ کیا، اسکے علاوہ پورے عالم کے سب سے شفیق اور پورے عالم کے مشائخ اور اکابر علماء کے سرخیل، مرشد حضرت مولانا سید ابو الحسن علی، نوراللہ مرقدہ، کے قدموں سے نسبت عطاء فرمائی، اسی پر بس نہیں، ایسے گنوار اور نااہل گھس کھدوں کو جنکو گھانس کھودنے کی تمییز نہیں محض اپنے فضل سے، پورے عالم کے ماحول کے خلاف پورے دین کے سب سے محترم اور میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی سنت مقصودہ،دعوت کے لئے منتخب کیا۔
دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو کیا ان سب انعامات میں ہماری کسی کی طلب واستحقاق تو دور کی بات ہے، خواب وخیال کو بھی کوئی دخل نہیں، اسکے علاوہ اگر اللہ تعالیٰ ہوش وحواس دیں تو ساری زندگی بس خصوصی انعامات کو شمار کرنے میں لگ جائیگی، شکر تو کیا کر پائینگے، وہ جو اس قدر کرم فرمائی کرنے والے ہیں اور اس قدر انعامات کے لحاظ سےوی وی وی آئی پی مقام پر رکھا۔
الله ہمارے پالنے والے، ساری غلطیوں پر ہمیشہ ستاری کا معاملہ فرمانے والے ہیں اور وہ فعال لمایرید، علی کلی شئ قدیر بھی ہیں اور اس دنیا میں کوئی پتہ میرے اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا اور ان کی شان، اذا ارادا شیئا ان یقول لہ کن فیکون ہو پھر چند روز دعوت جیسی سارے انبیاء اور مدینہ والے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی سنت مقصودہ کیلئے چند روز کیلئے اپنے خاص الخاص کرم اور اپنی نعمتوں کے دوسرے رنگ دکھانے کیلئے اگر یہاں بھیج دیا ہے تو پھر شکر کے بجائے اضطراب کے کیا معنی؟ اس لئے میرے پیارے پریشان مت ہوں، اللہ کی رحمت پر بھروسہ وشکر کیجئے وقت گزرجائے گا تو پتہ لگے گا کہ یہ ایام، اتنے انعام اور رحمت کے ہیں، ابھی شاید آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو انشاءاللہ آجائے گا۔
اگر سمجھ میں نہ آئے تو زندگی بھر کی بلا طلب اور بلا استحقاق نعمتوں کا خیال کرئیے جو ہمیشہ وی وی وی آئی پی بناکر کریم رب نے عطاء فرمائی۔ ایمان بالغیب کے طور پر دل کی گہرائیوں سے کمال تشکر کے جزبہ کے ساتھ، الحمدللہ، حمدا کثیرا کثیرا ،کا ورد کیجئے نعرے لگائیے، اور مست رہئیے، مستی کیجیئے، یہ خط میرے گھر والوں کو یا کسی خاص رفیق کو بھی پڑھا سکتے ہیں،
اچھا آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے ہم جیسے ظاہر باطن کے گندوں اور بے حس سے، جنکو دعوت کی الف با، بھی کبھی نہیں آتی تھی میرے کریم رب نے بغیر کسی طلب واستحقاق بلا اہلیت اور کوشش، وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود دعوت جو کار نبوت اور پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم، کی سنت مقصودہ اور جسکا نام بھی امت کیلئے اجنبی ہوگیا تھا، اس دعوت کی آواز کو ہم گندوں کی پہچان بناکر پورے عالم کے کونے کونے تک پہونچا کر ایک انقلاب برپا کروانا میرے رب کاایک نمبر کا vvvip کرم ہے کہ نہیں، جب ایسی عنایات ہیں تو اضطراب بے معنی ہے۔
پیارے بیٹے، میرے رب کا کرم ہے کہ اللہ نے ہر طرح کی ایک نمبر کی، vvvip نعمتوں سے ہمیں آپ کو نوازا ہے، اس میں ایمان بھی ہے اور اسلام بھی ہے، اور مسلمان ہونا تو اپنی چاہت سے دستبردار ہونے کا نام ہے اور مسلمان ہونے کا مزہ اپنی چاہت کو اپنے پیارے رب کی چاہت میں فنا کردینے میں ہے۔
کسی نے بہلول دانا رحمۃ الله علیہ، سے سوال کیا کہ کیا حال ہے، انہوں نے جواب دیا اس شخص کا کیا حال پوچھتے ہو، زمین وآسمان کا نظام جسکی مرضی سے چلتا ہو، سوال کرنے والا بہت شرمندہ ہوا، اس نے اپنے منھ پر ہاتھ رکھا، بہلول، توبہ کرو خدائی کا دعویٰ کررہے ہو، بہلول دانا، نے جواب دیا کہ خدائی کا دعویٰ نہیں، بندگی کا اقرار کر رہا ہوں، میں نے اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی میں فنا کردیا ہے، تو اب کائنات میں کچھ ہورہا ہے میری مرضی سے ہورہا ہے، وہ الله جو ساری کائنات پر رحیم وکریم ہے، اور ہمارے ساتھ اسکا بے نہایت اخص الخواص کرم ہے اس پیارے رب کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہمارے لئے ہے وہ سراسر کرم ہے پھر اضطراب اور بے چینی کیسی؟
کیس اور پیروی- اسکا رخ بھی میرے رب کی مرضی سے چل رہا ہے، اس لئیے خوش اور مست رہیئے، بس مزہ لیجیئے تفویض کا، کیا ہم اشرف المخلوقات ہوکر اس معصوم چڑیا سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں، بس نعرہ لگائیے۔۔۔۔۔
راضی ہوں میں اسی میں جس میں ہوں آپ راضی
میری خوشی وہی ہے جو آپ کی خوشی ہے
والسلام
آپکا
محمد کلیم