اڈیشہ ٹرین حادثہ: جس اسکول کو عارضی مردہ خانہ بنایا گیا تھا اسے منہدم کردیا گیا، طلبا نے اسکول آنے سے انکار کردیا تھا

حیدرآباد (دکن فائلز) گزشتہ ہفتہ اوڈیشہ کے بالاسور میں ٹرین کے خوفناک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو ایک اسکول میں رکھا گیا تاہم اب والدین سمیت بچوں نے اسکول جانے سے انکار کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اوڈیشہ میں گزشتہ ہفتے ایک خوفناک حادثہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں 288 مسافر ہلاک ہوگئے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے تھے تاہم ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو قریب میں واقع ایک اسکول کی عمارت میں رکھا گیا تھا۔ حادثہ میں زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا، بڑی تعداد میں مریضوں کی بھرتی کے بعد ہسپتال میں جگہ کی قلت ہوگئی جس کی وجہ سے لاشوں کو ہسپتال یا مردہ خانہ منتقل کرنے کے بجائے قریب میں واقع ایک اسکول میں رکھا گیا تھا کیونکہ اسکول کو چھٹیاں ہونے کی وجہ سے اسکول خالی تھا۔ لاشوں کو یہاں کچھ روز رکھا گیا۔

بعدازاں اسکول کی عمارت سے تمام لاشوں کو ہٹادیا گیا اور اسکول کے احاطہ کو صاف بھی کردیا گیا۔ لیکن اب اسکول میں پڑھنے والے بچے اور ان کے والدین خوف میں مبتلا ہوگئے۔اب بچوں نے اسکول جانے سے منع کردیا جبکہ سرپرست بھی انہیں بھیجنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ذرائع کے مطابق متعدد والدین نے اپنے بچوں کا اسکول سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

طلبا کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بھولنا مشکل ہے کہ اسکول کی عمارت میں اتنی ساری لاشیں رکھی گئی تھی، ہائی اسکول کی پرنسپل پرمیلا نے اس سلسلے میں کہا کہ طالب علم ڈرے ہوئے ہیں۔

کچھ والدین نے اسکول کی پرانی عمارت کو گراکر نئی بلڈنگ تعمیر کرنے کا مشورہ بھی دیا جسے اسکول انتظامیہ نے قبول کرتے ہوئے اعلیٰ حکام اس سلسلہ میں گذارش کی گئی۔ حکومت نے بھی پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے بعد پرانی عمارت کو گرا کر اس کی نئی سرے سے تعمیر کرنے کے سلسلہ میں کاروائی کا آغاز ہوگیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ گرمی کی چھٹیوں کے بعد اسکول 16 جون سے دوبارہ کھولا جانا تھا لیکن بچوں اور اساتذہ نے اسکول آنے سے منع کردیا۔ یہاں لاشیں رکھے جانے سے وہ بری طرح خوفزدہ تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکول میں تقریباً 250 لاشیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے لیے 6 کلاس روم اور ایک ہال کا استعمال کیا گیا تھا۔ بعد میں یہاں سے لاشوں کو بالاسور اور بھونیشور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ لاشوں کو ہٹانے کے بعد اسکول کو پوری طرح سینیٹائز بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود بچے اور اسکولی اساتذہ اسکول کے اندر جانے سے ڈر رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں