جی آئی او، حیدرآبادکی تین روزہ مشعل فیسٹ کا پبلک کانفرنس کے ساتھ اختتام، ڈاکٹر طہٰ متین، مولاناحامد محمد خان، ڈاکر ایم کے ایم ظفر، آسیہ تسنیم، ناصرہ خانم، مبشرہ فردوس، مسیرہ فردوس، ڈاکٹر اصفیہ انعم و دیگر کے خطابات

حیدرآباد (پریس نوٹ) گرلز اسلامک آرگنائزیشن۔جی آئی او، حیدرآبادکے زیرِ اہتمام نمائش میدان نامپلی،حیدرآبادپرمنعقدہ تین روزہ مشعل فیسٹ (وہ صبح ہم ہی سے آئے گی اور یہ صبح ہم ہی لائیں گے) کاآج پبلک کانفرنس کے ساتھ اختتام عمل میں آیا۔ یہ پروگرام خواتین و طالبات کی تعلیم،روحانیت، اخلاق و کرداراور تفریح کے حوالے سے ایک جامع پلیٹ فارم فراہم کرنے میں نہایت کامیاب و موثر رہا۔ مذکورہ کانفرنس میں مقررین نے خواتین کے حقوق، اس کے وقار اور اس کی معاشرتی اہمیت پر گفتگو کی، جبکہ ملی ترانے اور جی آئی او کی مدحت پر مبنی ترانوں نے ماحول کو جذباتی اور روح پرور بنا دیا۔ کانفرنس کا مرکزی موضوع ” مشعل،یہ صبح ہم ہی سے آئے گی اور وہ صبح ہم ہی لائیں گے” پر مبنی تھا، جس پر مقررین نے بھرپور روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تاریکی سے نکل کر نئی صبح ہم ہی کو لانی ہے، یعنی برائیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے نیکیوں کی روشنی ہم ہی کو پھیلانی ہے۔ اس کے لئے عملی اقدامات اور خود کی اصلاح ناگزیر ہے۔

صرف زیب و زینت پر توجہ دینا کافی نہیں، بلکہ خواتین کو اپنے اندر نیکوکاری پیدا کرنی ہوگی اور دوسروں کو بھی راہِ راست پر لانے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ ایک نیک عورت ہی ایک نیک خاندان اور معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔پبلک کانفرنس میں مقررین نے عورت کی عظمت اور کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا انبیاء، صالحین اور اولیاء جیسی عظیم ہستیاں بھی ایک عورت یعنی ماں کی گود سے ہی پروان چڑھیں۔ یہ عورت کا مقام ہے جس نے دنیا کی رہنمائی کرنے والوں کو جنم دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام نے عورت کو اس کے تمام حقوق دیے ہیں اور اس کے وقار کی پاسداری کی ہے، جسے آج کے دور میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔موبائل فون کے استعمال پر تنبیہ اور زندگی کے مقصد پر زور دیتے ہوئے نوجوان نسل کو موبائل فون کے غیر ضروری اور بے جا استعمال سے دور رہنے کی تلقین کی گئی۔مقررین نے کہا کہ یہ عادت نہ صرف وقت کا ضیاع کرتی ہے بلکہ روحانیت اور اخلاقیات پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ ماؤں، بہنوں اور طالبات کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ رضائے الٰہی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور اسلامی اقدار کو اپناتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریں۔اور قرآن و سنت سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیں۔مقررین نے فلسطین میں جاری بربریت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے لئے ایک چیلنج ہیں۔ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم ان کے حق میں آواز بلند کریں، دعا کریں اور عملی طور پر ان کی حمایت کریں۔مقررین نے شرکا ء کو فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور ان مظلوموں کے لئے ہمدردی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی بھی تلقین کی۔مقررین نے اپنے خطابات میں قرآن کریم کے ساتھ مضبوط رشتہ بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن وہ روشنی ہے جو ہر تاریکی کو ختم کر سکتی ہے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگیوں کا مرکز بنائیں اور اپنے اعمال کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ یہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔شرکاء کو قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور معاشرے میں اس کی روشنی پھیلانے کی تلقین کی گئی۔ مقررین نے کہا کہ قرآن سے جڑ کر ہم نہ صرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔پروگرام کے اختتام پر ملی ترانوں اور جی آئی او کی مدحت پر مبنی ترانے پیش کیے گئے، جنہوں نے شرکاء کے جذبات کو گرما دیا۔ نمائش میدان نامپلی، جذباتی نعروں اور پرجوش ترانوں سے گونج اٹھا، اور سامعین نے ان مظاہروں کو بے حد سراہا۔ ان ترانوں نے خواتین کو اتحاد، خوداعتمادی، اور مقصد کے ساتھ جینے کی ترغیب دی۔

اس موقع پر پروگرام کے دوران جی آئی او کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا گیا۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ جی آئی او نے خواتین اور لڑکیوں کے لئے ایک منفرد پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، جہاں وہ اپنے حقوق کے بارے میں شعور حاصل کرنے کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بھی نکھار سکتی ہیں۔مشعل پروگرام نے شرکاء کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ تین دن کے دوران روحانی زون، قرات اور بیت بازی کے مقابلوں، اور فن زون جیسی سرگرمیوں نے خواتین کو خود کو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کیے۔ مقررین کے ولولہ انگیز خطابات نے انہیں معاشرتی تبدیلی کا عزم دیا۔ جی آئی او نے اس موقع پر اعلان کیا کہ مشعل جیسے پروگرامز کو مستقبل میں مزید وسعت دی جائے گی تاکہ خواتین کو تعلیم، روحانیت،اخلاق و کردار اور تفریح کے مزید مواقع فراہم کیے جا سکیں۔پروگرام کے آخری مرحلے میں قرات، بیت بازی، ترانے، اور دیگر مقابلوں کے جیتنے والوں میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ یہ انعامات شرکا ء کی حوصلہ افزائی کے لئے تھے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار سکیں۔ جیتنے والے شرکاء نے اپنی کامیابی کو جی آئی او کی رہنمائی کا نتیجہ قرار دیا اور اس تجربے کو نہایت فائدہ مند کہا۔

مشعل پروگرام کا یہ اختتام ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ ہے، جہاں خواتین کو نہ صرف ان کے حقوق کے بارے میں شعور دیا گیا بلکہ ان کی اہمیت اور کردار کو بھی اجاگر کیا گیا۔ انعامات کی تقسیم نے شرکائکو حوصلہ دیا اور ان کی محنت کو سراہا گیا۔ یہ پروگرام معاشرتی ہم آہنگی، روحانیت، اور ملی وحدت کا پیغام دیتے ہوئے خواتین کو ان کے وقار اور اہمیت کا احساس دلانے میں سنگ میل ثابت ہوا۔مذکورہ تقریب میں مولاناحامد محمد خان، ایکسپانشن ڈائرکٹر جماعت اسلامی ہند، آسیہ تسنیم اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہندمرکز، ڈاکٹراصفیہ انعم صدر جی آئی اور حیدرآباد، ڈاکر ایم کے ایم ظفرامیرحلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ، ڈاکٹر مبشر احمد، ناظم شہر جماعت اسلامی ہندحیدرآباد، مسیرہ فردوس صدر جی آئی او تلنگانہ، عفیفہ سٹی سکریٹری جی آئی او حیدرآباد، ڈاکٹر مریم عفیفہ نیورو سرجن، ڈاکٹر طہٰ متین ایم اکور ا ہاسپٹل بنگلورو، عرشیہ غزالہ جی آئی او گوشہ محل، مبشرہ فردوس سی آئی سی سکریٹری جے آئی ایچ مرکز، ناصرہ خانم،سابق سکریٹری مرکزجماعت اسلامی ہند، ریان اشرف،ثانیہ مریم،و دیگر جی آئی اوکی ذمہ داران نے خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں