اوقاف کی حفاظت ہر قیمت پر ضروری: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے خطبہ جمعہ جاری کردیا (ائمہ و خطباء حضرات توجہ فرمائیں)

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد !

اسلام میں جیسے اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اسی طرح انسانوں کی مدد کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ اسی لئے نماز، روزہ کے ساتھ ساتھ زکوۃ و صدقہ فطر کے احکام بھی دیئے گئے ہیں، اگر انسان سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی کے لئے مالی کفارہ یعنی فقراء و مساکین کو کھانا کھلانے اور کپڑے پہنانے کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے، مثلاً اگر کسی نے جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا ہو تو اس کے بدلہ اسے ساٹھ روزے رکھنا ہوگا، یا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا، گویا روزہ جیسی عبادت اور مسکین کو کھانا کھلانا دونوں کا اجر برابر ہے، صدقہ و انفاق کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وقتی طور پر کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کردی جائے، جیسے کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا، کسی کو کپڑے کی ضرورت تھی، اس کا کپڑا بنادیا، کسی مریض کا علاج کرادیا، دوسری صورت یہ ہے کہ ایسا کار خیر کیا جائے کہ جس کا نفع بہت سے لوگوں کو پہنچے، اور بہت دنوں تک پہنچتارہے، اگرچہ یہ دونوں ہی صورتیں اجر و ثواب کی ہیں؛ لیکن دوسری صورت میں زیادہ اجر ہے؛ اس لئے کہ جس چیز کا نفع جتنے لوگوں کو پہنچے گا اور جتنی دیر تک پہنچتا رہے گا، اسی قدر زیادہ اس کا اجر ثواب بھی ہوگا۔

چنانچہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس سے عمل کا رشتہ کٹ جاتا ہے، سوائے تین صورتوں کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے بعد کے لوگ نفع حاصل کرسکیں، صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کا اہتمام کرتی ہو: ’’صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ من بعدہ أو ولد صالح یدعو لہ‘‘ (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث نمبر: ۴۳۱۰، أبو داؤد، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی الصدقۃ من المیت، حدیث نمبر: ۲۸۸۲)۔

علم نافع سے مراد کسی صاحب علم کی کتابیں اور اس کے تلامذہ ہیں، جن سے طویل مدت تک لوگوں کو نفع پہنچتا رہتا ہے، صالح اولاد کی مراد ظاہر ہے، ایسے بچے جن کی دینی تعلیم وتربیت کی گئی ہو اور اس تربیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کے لئے دعاؤں کا اہتمام کرے، اور صدقہ جاریہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام انسان کرجائے جس کا نفع اس کے بعد بھی جاری رہے، جیسے کنواں کھدائے، بورویل کرائے، مسجد اور تعلیمی ادارہ کی تعمیر میں حصہ لے، دینی کتاب شائع کرادے، مسافروں اوریتیموں کے لئے کوئی کار خیر کردے، اس طرح کے جو بھی خیر کے کام ہیں۔ وہ سب صدقہ جاریہ میں شامل ہیں۔

ایسے ہی صدقۂ جاریہ کی ایک شکل ’’وقف‘‘کہلاتی ہے، وقف کے اصل معنی ’روکنے ‘کے ہیں، وقف میں اصل شئے کو روک کر اس سے حاصل ہونے والا نفع وقف کرنے والے کے منشا کے مطابق مستحقین پر خرچ کیا جاتا ہے۔ چوںکہ اس میں اصل شئے بچی رہتی ہے اور اس کو روکے رکھا جاتا ہے؛ اس لئے اس کو ’وقف ‘کہتے ہیں، وقف اور عام صدقات کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے، کہ عام صدقات میں غرباء و ضرورت مندوں کو اصل شئ کا بھی مالک بنادیا جاتا ہے اور کسی اور مستحق کے لئے اس سے استفادہ کی گنجائش نہیں رہتی، اور وقف میں ایسا نہیں ہوتا — بہر حال اس سے وقف کی اہمیت اور اس کا اجر و ثواب معلوم ہوتا ہے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ وقف پر نہ وقف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے، نہ اس پر متولی کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ ان لوگوں کی جن کو اس سے نفع اٹھانے کا حق دیا گیا ہے؛ بلکہ وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے: ’’ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالی‘‘ (در مختار مع الرد، کتاب الوقف: ۳؍۴۹۳) چوںکہ اسلام میں صرف عبادت ہی کارِ ثواب نہیں ہے؛ بلکہ انسانی خدمت بھی باعث اجر و ثواب ہے؛ اس لئے وقف کا دائرہ بہت وسیع ہے، جیسے فقراء کو نفع پہنچانے والی چیزوں کا وقف درست ہے، اسی طرح ایسا وقف بھی درست ہے جس سے فقراء اور مال دار دونوں فائدہ اٹھاسکیں، یہاں تک کہ خود اپنی اولاد پر وقف کرنا بھی درست ہے، (دیکھئے: در مختار، فصل فیما یتعلق بوقف الأولاد: ۳؍۶۰۴) چنانچہ مدارس، مساجد، یتیم خانے، غرباء کی امداد کے لئے قائم کئے ہوئے ادارے، دینی یا عصری تعلیم کے خیراتی ادارے، مریضوں کے علاج، بیواؤں کی کفالت اور اس طرح کے مقاصد کے لئے قائم ہونے والے ادارے، جن کا مقصد تجارت کرنا اور کسی خاص فرد کے لئے مادی نفع حاصل کرنا نہ ہو، وہ سب کے سب اوقاف میں داخل ہیں۔

یوں تو مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے عطایا دینے کا تصور بہت قدیم ہے، اسلام سے پہلے عربوں کے یہاں کعبۃ اللہ کے لئے نذرانے پیش کرنے کا ذکر ملتا ہے، جسے کعبہ کے اندر دفینہ کی شکل میں محفوظ کردیا جاتا تھا، بائبل میں بھی خدا کے نام پر چیزوں کے نذر کرنے کا ذکر ہے، حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے پیدا ہونے والے بچہ کو خدا کی نذر کرنے کا عہد کیا تھا؛ اسی لئے حضرت مریم علیہا السلام بیت المقدس کی خدمت کے لئے اپنے خالو حضرت زکریا ں کے حوالہ کردی گئیں (آل عمران: ۳۵ – ۳۷)لیکن اسلام نے مختلف خیراتی مقاصد کے لئے وقف کا جو وسیع تصور پیش کیا ہے، وہ اس سے پہلے نہیں ملتا، — کہا جاتا ہے کہ امت محمدیہ میں پہلا وقف حضرت عمر ص نے کیا ہے؛ لیکن یہ وقف کی خاص نوعیت اور تفصیلی احکام کے اعتبار سے ہے، ورنہ وقف تو سب سے پہلے خود رسول اللہ ا نے کیا ہے، آپ ا نے بہ نفس نفیس مدینہ کے دو یتیم بچوں — حضرت سہل اور حضرت سہیل — کا باغ خریدا، جس میں مسجد نبوی بنائی گئی اور اس سے متصل تعلیمی ضرورت کے لئے چبوترہ بنایا گیا، جسے عربی میں ’’صفہ‘‘ کہتے ہیں، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا دار العلوم تھا، مسجد اور یہ درسگاہ دونوں آپ ا کی وقف کی ہوئی زمین میں قائم ہوئے، اسی طرح حضرت عثمان غنی ص نے میٹھے پانی کا کنواں ’’بئر رومہ‘‘ خریدا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف فرمادیا، (صحیح البخاری فی ترجمۃ الباب، کتاب المساقاۃ، باب في الشرب، وکتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب عثمان بن عفان ص)، حضرت جابر ص نے اپنا ایک باغ اللہ کے راستہ میں وقف فرمادیا، جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں موجود ہے، غرض کہ مختلف اوقاف ہیں، جو ’وقف فاروقی ‘سے پہلے کے ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو وقف کی طرف اشارہ خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار ’’انفاق‘‘ یعنی اچھے کام میں مال خرچ کرنے اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے، حدیث میں صراحۃً آپ ا کی ترغیبات موجود ہیں؛ کیوںکہ یہ صدقۂ جاریہ کی سب سے اعلی صورت ہے، صحابہ ث نے بہ کثرت اس کارِ خیر میں حصہ لیا ہے اور بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس پر ان کا اجماع و اتفاق ہے؛ (المغنی: ۸؍۱۸۷) اس لئے فقہاء اسلام کی رائے ہے کہ یہ مستحب کے درجہ کی عبادت ہے، (حوالہ سابق: ۸؍۱۸۷)۔

وقف کی اسی اہمیت کی وجہ سے مسلمان ہمیشہ سے مختلف کار خیر کے لئے وقف کرتے رہے ہیں، اور اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی ایک روشن تاریخ رہی ہے، مسلمانوں نے نہ صرف مسجدوں، عیدگاہوں، قبرستانوں اور درگاہوں پر وقف کئے ہیں اور یتیم خانے اور مسافر خانے بنائے ہیں؛ بلکہ بیماروں، معذوروں، تیمار داروں یہاں تک کہ جانوروں اور پرندوں کے چارے کے لئے بھی وقف کیا ہے، جس سے خدمت خلق کا غیر معمولی جذبہ ظاہرہوتا ہے؛ اسی لئے مسلمان جہاں کہیں آباد ہوئے،وہاں آج بھی اوقاف کی بے شمار زمینیں اور جائدادیں موجود ہیں، ہندوستان میں وقف کی اتنی املاک ہیں کہ اگر ان کا صحیح استعمال ہو اور اس کے فوائد مسلمانوں کو دیئے جائیں تو مسلمانوں کے تمام تعلیمی اور معاشی مسائل حل ہوجائیں اور اس وقت مسلمان جس زبوں حالی اور پسماندگی سے دوچار ہیں اور حکومت کے سامنے ان کو کاسہ گدائی پھیلانا پڑتا ہے، اس کی نوبت نہ آئے، مگر افسوس کہ مسلمانوں کے پچاس فیصد کے قریب اوقاف وہ ہیں جن پر حکومت اور برادران وطن کا قبضہ ہے اور جو جائیدادیں خود مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں، ان میں سے بیشتر جائدادیں بھی ناجائز قبضہ سے دو چار ہیں، بہت سے قبرستان زمین کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں نے بیچ دئیے ہیں، مسجدوں کی اراضی پر تو ناجائز قبضہ کیا ہی جاتا ہے، اللہ سے بے خوفی کی حد یہ ہے کہ بعض پرانی مسجدوں کو بھی بیچ کھانے میں تکلف نہیں، اخبارات میں ایسے واقعات چھپتے رہتے ہیں۔

اوقاف کے ساتھ ناجائز طرز عمل کا ایک حصہ یہ ہے کہ جو لوگ موقوفہ جائدادوں کو کرایہ پر لیتے ہیں، وہ اس کا کرایہ ادا کرنا نہیں چاہتے، جس عمارت کا کرایہ پانچ ہزار دس ہزار ہونا چاہئے، پچاس روپے، سوروپے اس کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود تو سو ڈیڑھ سو کرایہ ادا کرتے ہیں اور وہ دوسروں سے لاکھوں روپے پگڑی لے کر ماہانہ ہزاروں روپے کرایہ اٹھاتے ہیں، وقف پر ناجائز قبضہ اور اس سے ناجائز استفادہ کی فہرست اتنی طویل ہے اور اتنے بڑے اور نمایاں لوگ اس میں شامل ہیں کہ سن کر حیرت ہوتی ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے کسی بندے نے اوقاف کی جائداد کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا ارادہ کیا، اس کو تعلیمی مقاصد کے لئے کار آمد بنانے پر کمر بستہ ہوئے اور دوسری طرف کچھ بدنیت لوگ ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑگئے۔

ہندوستان میں کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہاہے، برطانوی غلبہ کے بعد بھی ملک میں مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستیں موجود تھیں، جو مسلمان نوابوں اور ہندو راجائوں مہاراجائوں کے زیر اقتدار تھیں، مسلمان حکمرانوں نے اگرچہ کہ دعوت اسلام پر برائے نام توجہ دی اور وہ ہمیشہ اپنے پایہ اقتدار کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہے؛ لیکن انہوں نے خالص اسلامی اور خیراتی مقاصد کے لئے بہت سی اراضی اورتعمیرات وقف کیں،اور ان کو پائیدار نفع رسانی کا ذریعہ بنایا، اسی طرح ہندو راجائوں نے بھی اپنی مسلمان رعایا کے لئے مسجد یں بنوائیں، مزارات تعمیر کئے، قبرستانوں کے لئے جگہیں مہیا کیں،اور دوسرے مقاصد کے لئے جائیدادیں وقف کیں، جب اس ملک میں انگریز آئے تو انہوں نے اولا تو مسلمانوں کے بہت سے اوقاف کو ہڑپ لیا؛ لیکن آہستہ آہستہ اوقاف بازیاب ہوئے اور ایسی جگہوں کے سواجو حکومت کے تصرف میں آچکے تھے،دوسری جائیدادوں کوحکومت نے وقف تسلیم کرلیا۔

حکومت کا فریضہ ہے کہ جیسے شخصی املاک کا احترام کیاجاتا ہے اور جیسے پبلک جائدا د کے تحفظ کو گورنمنٹ قانونی اہمیت دیتی ہے،اسی طرح وہ وقف جائداد کا بھی تحفظ کرے اور قانونی طور پر اس کی بازیابی کوآسان اور یقینی بنائے، یہ ایک حقیقت ہے کہ وقف کی اراضی پرایسے بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہوگئے ہیں، کمپنیاں قائم ہوگئی ہیں کہ شاید ان کی واپسی آسان نہ ہو، لیکن ایسا تو ہوسکتا ہے کہ گورنمنٹ انہیں کرایہ ادا کرنے پر مجبور کرے؛تاکہ وقف کے مقاصد میں اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے اس کا استعمال ہوسکے، اسی طرح خود گورنمنٹ کے بہت سے دفاتر اور سرکاری بلڈنگیں وقف کی زمین میں بنی ہوئی ہیں، محل وقوع کے اعتبار سے ان کا کرایہ بہت خطیر ہونا چاہئے، خود حکومت ایسی زیر استعمال جائدادوں کا کرایہ وقف بورڈ کو ادا کرے، اگر ایسی مقبوضہ اراضی کا مناسب کرایہ وقف بورڈ کو ادا کیاجائے تو غریب مسلمانوں کی تعلیم، یتیموں کی کفالت، مطلقہ و بیوہ عورتوں کی پرورش، بے روز گار نوجوانوں کے لئے روزگار پر مبنی تربیت اور خودروزگار بنانے جیسے مسائل بہ آسانی حل کئے جاسکتے ہیںا ور انہیں حکومت کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلانے سے نجات مل سکتی ہے۔

وقف کے لیے پارلیمنٹ میں غالباً پہلی بار 1954 میں مستقل قانون بنا، اس سے پہلے وقف کے لیے الگ سے کوئی قانون نہیں تھا اور وقف کے مسائل مسلم ایکٹ 1923 کا حصہ تھے، لیکن مسلمانوں کا احساس تھا کہ یہ قانون وقف کے تحفظ کے لیے ناکافی ہے۔ پھر 1984 میں اس کی جگہ نیا وقف کا قانون آیا لیکن یہ بھی مسلمانوں کے تمام مطالبات کو پورا نہ کر سکا، پھر 1995 میں نیا وقف قانون سامنے لایا گیا جس میں مسلمان کے مطالبات کا کچھ حصہ پورا ہوا مگر زیادہ بڑا حصہ باقی رہا۔ اس کے بعد سن 2010 میں نہایت اجلت کے ساتھ لوک سبھا سے ترمیم شدہ قانون وقف پاس کیا گیا جسے جمعہ کے دن بالکل آخری وقت میں کسی بحث و مباحثے کے بغیر منظور کرا لیا گیا، پھر سن 2013 میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور بورڈ کے ذمہ داران و ارکان کی کوششوں سے وقف ایکٹ میں ترمیم کروائی گئی اور وقف ایکٹ کی خامی اور نقائص کو دور کیا گیا، اگرچہ کے اس کے ذریعے بھی مسلمانوں کے سارے مطالبات پورے نہیں کیے گئے لیکن بڑی حد تک وقف ایکٹ مضبوط بن گیا جس کی وجہ سے اوقاف کو تحفظ نصیب ہوا۔ اب موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے، اس کے پیش نظر یہ بھی ہے کہ وقف بورڈ کے اختیارات کو کم کر دیا جائے، اطلاعات کے مطابق چالیس ترمیمات حکومت کے پیش نظر ہیں۔ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ ان ترمیمات کے ذریعے وقف ایکٹ کی مضبوطی ختم کر دی جائے گی اور مختلف ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کو کمزور کر دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اوقاف کی جائیدادوں کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا اور ملک بھر میں پھیلی وقف جائدادوں کا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ موجودہ وقف ایکٹ میں کوئی ایسی ترمیم نہ کرے جس سے وقف ایکٹ کی مضبوطی متاثر ہو اور تحفظ غیر یقینی ہو جائے اس سلسلے میں بورڈ نے اپنا یہ موقف واضح کر دیا ہے کہ:

وقف ایکٹ 2013، میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت و نوعیت بدل جائے یا اس کو ہڑپ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہوگی- اسی طرح وقف بورڈوں کے اختیارات کو کم یا محدود کرنے کو بھی قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپ لیناآسان ہوجائے۔ اطلاعات کے مطابق اس نوعیت کا بل اگلے ہفتہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستور ھند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔ اب تک حکومت نے مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات کئے ہیں اس میں ان سے کچھ چھینا ہی ہے، دیا کچھ نہیں، چاہے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا بند کیا جانا ہو یا اقلیتی اسکالرشپ کی منسوخی یا پھر تین طلاق سے متعلق قانون ہو۔ انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ وقف جائیدادوںپر تیشہ چلانےکے بعد اندیشہ ہےکہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوںکے اوقافی جائیدادوں اور پھر ھندوؤں کے مٹھوں اور دیگر مذہبی جائیدادوںکا بھی آسکتا ہے۔ مسلمان وقف ایکٹ میں کوئی ایسی ترمیم ہرگز ہرگز بھی قبول نہیں کرے گا جو اس کی حیثیت کو بدل کر رکھ دے۔ اسی طرح وقف بورڈوں کا قانونی اور عدالتی حیثیت اور اختیارات میں مداخلت کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔“

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں ہنگامی میٹنگ بھی طلب کی اور اس میں تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور اتفاق رائے سے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اوقاف کے سلسلے میں عوام میں بیداری لائی جائے، حکومت اور اپوزیشن پارٹیز کو اس سلسلے میں اپنے احساسات سے باخبر کیا جائے اور اور عوامی سطح پر ایک مہم چلائی جائے، اسی طرح جمعہ کے خطبات کے ذریعے اس موضوع کو عام مسلمانوں تک پہنچایا جائے یہ خطبہ جمعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور آئندہ ہفتے بھی انشاءاللہ اسی موضوع پر خطاب جمعہ جاری کیا جائے گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ملک کے مشکل حالات میں ہم سب کی مدد و نصرت فرمائے اور اوقاف کی حفاظت کی راہ ہموار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

وآخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین

اپنا تبصرہ بھیجیں