حیدرآباد (دکن فائلز) تلنگانہ کے جینور گاؤں میں ہوئے مسلم مخالف فسادکی تحقیق کرنے والی سماجی کارکنان کی فیکٹ فائینڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ رپورٹ میں فساد کے اسباب کا تفصیلی ذکر کیا گیا اور ساتھ ہی پولیس و انتظامیہ پر اس سلسلہ میں کی گئی سازشوں کو نظر انداز کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
کلارین انڈیا نیوز کے مطابق فیکٹ فائینڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ک 4 ستمبر کو تلنگانہ کے ضلع عادل آباد میں واقع جینور گاؤں میں ہوئے فساد کیلئے ریاستی حکومت کی بے عملی اور سازش کی طرف اشارہ کیا گیا۔ رپورٹ سماجی کارکنان کی جانب سے تیار کی گئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح کچھ سیاستدانوں نے آدیواسی اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں کردار ادا کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سے چشم پوشی کی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وڈارا، ونجارا اور قبائیلی سماج سے تعلق رکھنے والے تقریباً 5 ہزار فسادیوں نے جینور اور اس کے اطراف کے گاؤں میں مسلمانوں کی 95 دکانوں، 11 گھروں، 4 مساجد، 42 گاڑیوں کو آگ لگائی اور نقصان پہنچایا۔
وہیں انقلاب نیوز کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 31 اگست کو ایک آدیواسی خاتون پر مبینہ حملہ کو بہانہ بنا کر مبینہ طور پر بی جے پی کے رہنماؤں نے مسلمانوں پر حملوں کیلئے اکسایا اور مکمل معاونت کی۔ وہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ بی آر ایس کے کئی لیڈروں پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے حالیہ انتخاب میں کانگریس کو ووٹ دینے کا انتقام لیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 20 دنوں تک مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کیا گیا اور نام نہاد لو جہاد کی بات کہی گئی اور غیرضروری مظاہرے کئے گئے۔ اس دوران مسلمانوں کے خلاف جم کو جھوٹ پھیلایا گیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس رپورٹ میں حکومت سے سابق جج کی نگرانی میں ایک آزاد انکوائری کمیشن قائم کرنے اور ڈی ایس پی ، ایس پی اور دیگر افسران جو حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہے ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انقلاب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں تیار کی گئی اس رپورٹ میں فساد کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ اس طرح ہے کہ 12 مئی کو پارلیمانی انتخاب کے دوران وڈارا سماج اور مسلمانوں کے مابین جینور سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر معمولی جھڑپ ہوتی ہے جب ایک وڈارا سماج کے فرد کی بائیک سے مسلم لڑکے کو چوٹ لگ جاتی ہے۔ اس کے بعد کہا سنی میں چار سے پانچ وڈارا سماج کے لڑکے آکر اس زخمی مسلم لڑکے کی پٹائی کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی منٹوں کے بعد کچھ مسلم لڑکے بھی وہاں پہنچ کر وڈارا سماج کے لڑکوں سے بحث کرتے ہیں۔ اس کے بعد دیگر مسلمان وہاں پہنچ کر معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں لیکن پولیس یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے صرف مسلم لڑکوں کو حراست میں لے لیتی ہے، جس کے بعد ایک 55 سالہ معمر شخص ایوب خان وڈارا کالونی میں مصالحت کیلئے جاتے ہیں لیکن سندیپ نامی سب انسپکٹر کی موجودگی میں وڈارا سماج کے افراد انہیں بری طرح زدوکوب کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ بیہوش ہو جاتے ہیں، جبکہ ان کی موت کی افواہ پھیل جاتی ہے۔ کچھ ہی منٹوں میں تقریباً 200 مسلم نو جوان جمع ہو جاتے ہیں لیکن بزرگوں کے سمجھانے کے بعد معاملہ پھر ایک بار رفع دفع ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گونڈ سماج کے ایک فرد کو ونجارا سماج کے کچھ لوگ جبراً شراب پلا کر اسے زد و کوب کرتے ہیں اور خود ہی یہ افواہ اڑا دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک آدیواسی کو مارا پیٹا لیکن پولیس بنا کسی تحقیق کے 76 مسلم نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لیتی ہے لیکن ہائی کورٹ اسے سیاسی تصادم قرار دے کر انہیں ضمانت مل جاتی ہے۔ اس کے بعد بی جے پی اور اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کے ذریعہ، مسلمانوں اور قبائیلی سماج کے مابین کشیدگی پیدا کرنے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیاجاتا ہے جس کا نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس رپورٹ کے آخر میں کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ضلع انتظامیہ کو وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ فساد پر قابو پانے سے کہیں بہتر ہے فساد برپا ہونے سے روکنا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جینور فساد میں چن چن کر مسلمانوں کی املاک، دکانات، مکانات اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا لیکن پولیس نے فسادیوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے بجائے متعدد بے قصور مسلم نوجوانوں کو بھی گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ وہیں مقامی لوگوں نے بھی کانگریس حکومت کے رویہ پر شدید تنقید کی ہے۔