گیان واپی مسجد معاملہ سے متعل سپریم کورٹ میں ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جس میں پلیس آف ورشپ قانون کو غیرآئینی قرار دینے کی عدالت سے گذارش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرتے ہوئے دو پٹیشنس داخل کی گئی تھیں، جس میں ایک کو سپریم کورٹ نے سماعت کےلیے قبول کرلیا اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نے داخل کی تھی جبکہ پٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے جمعیت علمائے ہند سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی۔ اس کیس کے لیے جمیعۃ نے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کو مقرر کیا ہے جبکہ اس کیس کی سماعت 9 ستمبر کو متوقع ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بنچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس پی شری نرسہا شامل ہیں اس اہم مقدمہ کی سماعت کریگی۔
امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں ایک تازہ پٹیشن داخل کرکے عدالت سے گذارش کی ہے کہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی طور پر حفاظت اور اس کے موثر نفاذ کےلیے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لگ سکے۔ اس قانون کا موثر نفاظ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔نیز ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات درج کئے جارہے ہیں جبکہ بعض نچلی عدالتوں نے مختلف مقدمات پر اسٹیشن کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔
جمعیت علمائے ہند کی پٹیشن میں مزید بتایا گیا کہ کہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذ کرنے کا مقصد کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا۔ یہ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے جبکہ اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں بھی کیا گیا۔
جمعیۃ العلماء ہند (ارشد مدنی)کے گلزار احمد اعظمی نے اس مسئلہ پر بتایا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991 کو منظور کیا گیا تھا جس کے مطابق 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت تمام مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے عدالت میں زیر سماعت تھا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی مساجد، عیدگاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اس قانون کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ ہندتوا تنظیموں کی جانب سے تقریباً دو ہزار مقامات کی فہرست تیار کی گئی ہے جس پر ان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے ہندو عبادت گاہیں تھیں بعد میں انہیں مسلم حملہ آوروں نے تبدیل کردیا تھا، لہذا اسے دوبارہ ہندوؤں کے حوالے کردیا جائے۔ گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔