وزارت داخلہ نے گجرات کیڈر سے تعلق رکھنے والے انڈین پولیس سروس کے ایک افسر ستیش چندر ورما کو برطرف کر دیا ہے، جنہوں نے عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات میں سنٹرل بیورو کی مدد کی تھی۔
ستیش چندر ورما ہائی کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھے جس نے 2011 میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ 15 جون 2004 کو احمدآباد کے مضافات میں 19 سالہ عشرت جہاں کے ساتھ جاوید شیخ، امجد علی اکبر علی رانا اور ذیشان جوہر کو سیکوریٹی فورسز نے ایک فرضی انکاونٹر میں مار گرایا تھا۔ ورما سنٹر بیورو آف اونسٹی گیشن ٹیم کا حصہ تھے جس نے 2013 میں یہ ثابت کیا تھا کہ انکاونٹر فرضی تھا جس کے بعد سی بی آئی نے مختلف پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
عشرت جہاں انکاونٹر کے بعد گجرات پولیس کے عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان چاروں کے دہشت گرد گروپ سے تعلق تھا اور وہ نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش کررہے تھے جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔
ستیش چندر ورما کو ان کے ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ماہ قبل برطرف کردیا گیا۔ اگر برطرفی عمل میں آتی ہے، تو وہ پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہوجائیں گے۔ وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ’وزارت داخلہ نے ورما کو جو 30 ستمبر کو ریٹائر ہونے والے تھے ایک ماہ قبل ہی 30 اگست کو برطرف کر دیا، جبکہ دہلی ہائی کورٹ نے انہیں اپنے قانونی اختیارات کا استعمال کرنے کے لیے 19 ستمبر تک کا وقت دیا ہے‘۔
برطرفی کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ورما میڈیا سے بات کررہے تھے جس سے ملک کے بین الاقوامی تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹ نے برطرفی کے حکم کو نافذ کرنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ورما کو 19 ستمبر تک کا وقت دیا ہے تاکہ وہ قانونی طریقے کا فائدہ اٹھا سکیں، جس کے بعد گذشتہ روز ورما نے سپریم کورٹ میں دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جس میں مرکز کو برخاستگی کے حکم کو نافذ کرنے کی اجازت دی گئ۔
ر ورما، 1986 بیچ کے آئی پی ایس افسر، انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جب کہ ان کے 1987 کے جونیئر اور دیگر بیچوں کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس رینک کے افسران کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ورما کوئمبٹور میں سی آر پی ایف میں تعینات ہیں۔ ایک اہلکار نے بتایا، ’’یہاں ایک ٹریننگ اسکول ہے اور وہ وہاں ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہے۔‘‘
2014 میں، ورما نے مرکزی ڈیپوٹیشن پر شمال مشرق میں ان کے اچانک تبادلے کے خلاف ایک درخواست میں کہا تھا کہ عشرت جہاں کیس میں ان کی تحقیقات کی وجہ سے ان خلاف دشمنی کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
نارتھ ایسٹرن الیکٹرک پاور کارپوریشن (NEEPCO) کے چیف ویجیلنس آفیسر کی حیثیت سے اپنی ڈیپوٹیشن کے دوران، انہوں نے اروناچل پردیش میں ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی اطلاع دی اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو، جو اس وقت وزیر قانون تھے کے رشتہ داروں اور محکمہ کے عہدیداروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔