اسمارٹ فون اگرچہ بہت سے امور میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن تازہ خبر یہ ہے کہ اب اسمارٹ فون میں نصب اسراع پیما (ایسلرومیٹر) سے چھوٹے بڑے پلوں کی تعمیراتی خامیوں اور کمزور انفراسٹرکچر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
کار کے سفر میں کسی پل سے گزرتے ہوئے موبائل فون کے اسراع پیما اہم معلومات جمع کرتے ہیں جس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا پل تندرست ہے یا پھر اس کا ڈھانچہ کمزور پڑ رہا ہے۔ اسمارٹ فون ڈیٹا سے بروقت پلوں کی مرمت سے ان کی معیاد 10 سے 15 برس تک بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔
روایتی طور پر پلوں کی ظاہری کیفیت دیکھ کر ہی ان میں پیدا ہونے والی خامیوں کا انکشاف ممکن ہے لیکن یہ کام ماہر انجینیئر ہی کرسکتا ہے۔ لیکن اس میں محنت اور وقت بہت لگتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پل پر سینسر لگا کر ارتعاشات سے پل کی صحت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جسے ’موڈیل فری کوئنسی‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر پل پر بہت زیادہ سینسر لگانا ایک مہنگا نسخہ ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت امریکی ملٹری اکادمی سے وابستہ ماہر تھامس میٹریزو نے اسمارٹ فون کو موڈیل فری کوئنسی معلوم کرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس کےلیے کسی مہنگے سینسر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے لیے ایک ایپ بنائی گئی ہے جو جی پی ایس نظام استعمال کرتی ہے۔ ایپ والے فون لے کر لوگ پلوں سے گزرے تو فون کے اندر موجود ایسلرومیٹر پل سے گزرتے ہوئے معمولی تبدیلی بھی نوٹ کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں فون کو ہموار حالت میں رکھنا ہوتا ہے۔
تین مختلف تجربات میں سے پہلی کاوش میں کار پر دو آئی فون چپکائے گئے اور اس گاڑی کو سان فرانسسکو کے مشہور گولڈن گیٹ برج سے 100 مرتبہ گزارا گیا۔
دوسرے تجربے میں اوبر سروس کے ڈرائیوروں کا ڈیٹا لیا گیا جنہوں نے اسی مشہور پل کے 70 چکر لگائے تھے۔ تیسرے تجربے میں اینڈروئڈ فون والی کار کو اٹلی کے ایک چھوٹے پل سے 250 مرتبہ گزارا گیا جو امریکی پل کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔
تمام ڈیٹا سیٹ کو احتیاط سے دیکھا گیا۔ آئی فون والے تجربے میں قدرے احتیاط کی گئی تھی جبکہ اوپر ڈرائیور والا تجربہ قابو سے باہر تھا۔ لیکن جب اس ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تو وہ حساس اور درست ترین جامد سینسر ہی کی طرح تھا۔ یوں اسمارٹ فون کو بہت آسانی سے اس کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح سے ملنے والے ڈیٹا کو استعمال کرکے پلوں کی مرمت کے بعد ان کی معیاد بڑھائی جاسکتی ہے۔