معاشرے میں رہن سہن کے لیے انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لیے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام بنایا گیا ہے جو صدیوں سے رائج ہے۔ اس نظام کے تحت انسان کسی معاشرے میں رہنے کے لیے معاشرے میں تعلقات استوار کرتا ہے۔ اپنا گھر بناتا ہے اور پھر اس کا منتظم بن کر اس کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظام کو خاندان کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کے قریبی اور خونیں رشتے دار شامل ہوسکتے ہیں۔
اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد اور دعوت و تبلیغ تک ہی محدود نہیں رکھتا بل کہ یہ ہمیں اُس راستے پر گام زن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن نبی کریمؐ تھے، جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہے۔
نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلو یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بل کہ شخصی، خانگی، خاندانی اور انسانی حقوق کے متعلق سب سے بڑھ کر پیغام دیا، کام کیا اور اپنے صحابہؓ کو اس کی تلقین فرمائی۔ اسلام نے نیکی کا جو جامع تصور دیا ہے، اس میں بھی خدمت خلق، حقوق انسانیت، اقرباء پروری، رہن سہن اور معاشرت، ایک لازمی حصہ ہے۔