از : ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm))
نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، حسنات اور سیئات ہر دو انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ مفسر ذیشاں، محدث زماں، فقیہ دوراں، حامل عرفاں، دقیقہ رسِ اسرارِ پنہاں،عاشق سرور عالماںﷺ، قدوۃٔ سالکاں حضرت سفیان ثوریؓ(716-778ھ م 1316-1376ء) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں راستہ سے گزر رہا تھا دیکھا کہ ایک آدمی زار و قطار رو رہا ہے میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ شاہد وہ ریاکاری کر رہا ہے بس اسی سوئِ ظن کی نحوست تھی کہ میں مسلسل پانچ ماہ تک نماز تہجد کی رحمتوں، برکتوں اور لذتوں سے محروم رہا۔ یہ ہے مومنانہ کردار، ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی زندگیوں کی شفافیت اور پاکیزگی کا نمونہ کہ برا خیال بھی آجائے تو اسے نعمتوں سے محرومی کا سبب سمجھتے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم بڑے سے بڑا گناہ بھی بڑی آسانی سے کرگزرتے ہیں لیکن ہمیں اعتراف قصور و کوتاہی اور احساس ندامت کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ بات ثابت شدہ و مسلم ہے کہ انسان کے ہر عمل کا نتیجہ اس کی زندگی پر مرتب ہوتا ہے جس کی تائید اللہ تعالی کے اس فرمان اقدس سے ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے ’’وان لیس للانسان الا ما سعیٰ‘‘ ترجمہ:۔ اور نہیں ملتا انسان کو مگر وہی کچھ جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ (سورۃ النجم آیت نمبر 30) یعنی اگر ہماری زندگی میں کوئی پریشانی آتی ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم سے دانستہ یا نادانستہ طور پر کوئی غلطی سرزد تو نہیں ہوگئی جس کی نحوستوں کے باعث ہم اس پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اور ایک مقام پر ارشاد ربانی ہوتا ہے ’’ومآ اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم‘‘ ترجمہ:۔ اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب پہنچتی ہے۔ (سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 30)
رب العالمین کے غایت کرم و عنایت، رحمت و لطافت کے یہ بالکل مغائر ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کردے۔ چنانچہ قرآن حکیم نے اس مفہوم کو متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ارشاد ہوتا ہے’’ومن اسآئَ فعلیھا و ما ربک بظلام للعبید‘‘ ترجمہ:۔ اور جو برائی کرتا ہے اس کا وبال اس پر ہے اور آپ کا رب تو بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (سورۃ الفصِّلت آیت نمبر 46) ہم دنیا کی موقتی خوشیوں کے لیے حلال و حرام کی سرحدوں کو پامال کردیتے ہیں جس کے سبب ہم سب کچھ ہونے کے باوجود سکون و اطمینان قلب کی دولت سے محروم ہوجاتے ہیں اور جلد یا دیر سے ہماری عیش و عشرت نما زندگی جھلستے ہوئے تنور سے بدتر بنجاتی ہے۔ یعنی دنیاوی مصائب و آلام، قلق و اضطراب ہمارے عقائد باطلہ، اعمال فاسدہ، مسلسل نافرمانیوں، باہم ایذا رسانیوں،غلطیوں، کوتاہیوں، بدکرداریوں کا طبعی ثمرہ اور عادلانہ سزا کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جس طرح برائی انسان کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کردیتی ہے اسی طرح نیکی سے انسان علو مرتبت و عظمتوں کا مینارہ نور بن جاتا ہے۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا موسیؑ نے حضرت خضر ؑ سے بلا اجرت دیوار تعمیر کرنے کی بابت دریافت فرمایا تو آپؑ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے نیک والدین کی جمع کردہ پونجی دفن ہے اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس پر غاصبوں اور ظالموں کی بری نظر نہ پڑے اور یہ خزانہ صحیح سلامت اس کی اولاد تک پہونچ جائے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے سورۃ الکہف) اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیک اعمال کے تجلیات و برکات، انوار و فیوضات کا اثر نہ صرف انسان کی اپنی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات اظہر من الشمس و ابین من الامس ہوجاتی ہے کہ برے اعمال سے موقتی خوشیاں تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات سے انسان دنیوی زندگی میں بے چینی و بیقراری، مشاکل و پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے تو دوسری طرف اس کی اخروی زندگی تباہ و تاراج ہوجاتی ہے جب کہ اعمال صالحہ کی انجام دہی میں انسان کو انتہائی محنت و مشقت ، مجاہدہ و ریاضت، ایثار و فدائیت اور صبر و استقامت سے کام لینا پڑتا بسا اوقات اس راہ میں اسے ہر طرح کی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود اعمال صالحہ کے برکات و فیوضات سے اس کی زندگی نہ صرف رشک ملائکہ بن جاتی ہے بلکہ وہ اخروی زندگی میں بھی وہ کامیاب و کامران ہوجاتا ہے۔
واقعہ کربلا اعمال نیک و بد کے اسی فلسفہ کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔ رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اپنی قوت سے اس کا دفاع کرے اگر قوت و طاقت نہیں ہے تو وعظ و نصیحت سے لوگوں کو اس برائی سے بچنے کی تلقین کرے اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم اس برائی کو اپنے دل میں غلط سمجھے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان) اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے شارح مسلم علامہ امام نوویؒ (631-676ھ م 1234-1278ء) لکھتے ہیںکہ اگر حاکم وقت کے ظلم سے رعایا عاجز آجائے تو یہ نیک لوگوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس ظالم کو ظلم کرنے سے باز رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرے اگر پھر بھی وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو عوام الناس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کریں اور اس سے جہاد کریں۔ (علامہ امام نوویؓ کا اسی طرح کا ایک قول حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (773-852ھ م 1372-1448ء) نے اپنی کتاب فتح الباری باب فتن میں نقل فرمایا ہے)۔
پاسبان حریت و شرف انسانی حضرت سیدنا امام حسینؓ نے اس حدیث کی عملی تشریح کربلا میں پیش فرمائی۔ عموماً حق کی آواز کو دبانے کے لیے باطل کے شعور ساکت کے سمندر میں تموج آتا ہے لیکن واقعہ کربلا اس سے مختلف ہے۔ اس معرکہ میں دونوں ہی طرف مسلمان تھے فرق صرف اتنا تھا ایک طرف خالص ایمان تھا جس کی تعلیم نبی رحمت نے فرمائی تھی تو دوسری طرف ایسے مسلمان تھے جن کے مطمع نظر حصول آسائش کے لیے زندگی گزارنا، ظلم و ستم کرنا، رقص و سرور کی محفلیں سجانا، عیاشی و مفاد پرستی سے کام لینا، مصلحت پسندی و دنیا طلبی تھا۔ دین اسلام کو منبع شرک و الحاد والے باطل نظریات سے پاک و محفوظ رکھنے کے لیے حلاوتِ ایمانی سے سرشار چند نفوس قدسیہ پر مشتمل گروہ قلیل علمبردار حق و صداقت حضرت سیدنا امام حسین ؓ کی قیادت میں تمام آلات حرب سے لیس گروہ کثیر سے برسرپیکار ہونے کا جراتمندانہ اقدام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حدود اسلامی کو پامال ہونے سے بچایا جاسکے۔ مجاہد اسلام حضرت سیدنا امام حسین ؓ نے قزاق و ظالم یزید اور اس کے باطل نظریات کے تضاد اور فکر کی بے اعتدالیوں ، حسد و نفرت، فسق و فجور، خود بینی و خود پرستی اور انانیت کے دہکتے ہوئے انگاروں کو الفت و محبت، فرمانبرداری و اطاعت، عفت و انسانیت، خلوص و للہیت کے باغات میں تبدیل کرنے، اخلاقی انحطاط کو سنبھلا دینے ، ظلمتوں کے صحراء میں نور نبوت کی روشنی پھیلانے اور اعلاء کلمۃ الحق کے لیے اپنے جانثاروں، جانبازوں اور خانوادۂ طاہرہ کی قلیل تعداد (یعنی تقریباً 100) ہونے کے باوجود 33,000 افراد پر مشتمل جنگی اوزار اور ہتھیاروں سے لیس یزید کی مسلح افواج کی ستم کیشیوں اور جفاکاریوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند فرمایا اور احقاق حق و ابطال باطل کا ایسا روشن باب رقم فرمایا کہ سپہر صبر و شہادت کے اس نیر اعظم کی ذات والا صفات کی تابانیوں، بانکپن اور نکھار کا بلا لحاظ مذہب و قوم ہر کوئی معترف ہوگیا اور واقعہ کربلا تا قیام قیامت ساری انسانیت کے لیے ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ جیسا زریں اصول اور ضابطہ بن گیا۔
پیر طریقت حضرت العلامہ ابو القاسم شاہ سید عبدالوہاب حسینی القادری الملتانیؒ ارشاد فرماتے ہیں ’’احکامات الہیہ اور فرامین مصطفیٰﷺ پر عمل آوری میں پیش آنے والی دشواریوں، رکاوٹوں، کٹھنائیوں اور دقتوں پر صبر کرنا مومن کوصراط مستقیم کی دولت سے مالامال کردیتا ہے جس کی وہ روزانہ نمازِ پنجگانہ میں خدا سے التجا و درخواست کرتا ہے۔ اور جو مومن صبر و رضا کے ساتھ جادہ حق پر استقامت کے ساتھ گامزن رہتا ہے اللہ تعالی اسے ہر زندگی کی ہر مسرت و لذت سے معمور کردیتا ہے‘‘۔ ملت کے بطل جلیل حضرت سیدنا امام حسینؓ کی شجاعت و بسالت، حرارت ایمانی و جذبۂ قربانی اور آئین جوانمردی سے لبریز واقعات تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر، تاریخ ابن اثیر، مقدمہ ابن خلدون، تاریخ الخلفاء، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، سیر اعلام النبلاء جیسی معتبر و مستند کتب سیر اور کتب احادیث میں شرح و بسط کے ساتھ درج ہے۔ تبرکاً کتب احادیث سے چند فرامین اقدس نقل کیے جاتے ہیں۔ حضرت سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ اطیب التحیۃ و اجمل الثناء سے دریافت کیا گیا کہ آپ ﷺ کو اہل بیت میں سب سے محبوب ترین کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا حسن اور حسین اور آپﷺ حضرت فاطمۃ الزھراؓ سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرے بیٹوں کو بلائو پھر آپﷺ انہیں چومتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیتے۔ (ترمذی شریف، مسند ابویعلی) عبدالرحمن بن ابی نعمؓ فرماتے ہیںکہ میں نے حضور رحمت عالم شفیع المذنبین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حسن اور حسین ہی تو میرے گلشنِ دُنیا کے دو پھول ہیں۔ (سنن الکبری، مسند احمد بن حنبل) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ مرقع ہر خوبی و زیبائیﷺ نے فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں یعنی حسنین کریمین سے بھی محبت کرے (صحیح ابن خزیمہ، مسند بزار)۔
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ شہنشاہ کونینﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے فرمایا جس سے تم لڑوگے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم صلح کروگے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔ (ابن ماجہ، ابن حبان، مصنف ابن ابی شیبہ، مستدرک)۔ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہؓ روایت فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ حسنین کریمینؓ عبد مکرم، رسول معظم محمد رسول اللہ ﷺ کی پشت اقدس پر سوار تھے آپ نے دونوں شہزادوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہاری سواری کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔ (أمثال الحدیث، مجمع الزوائد، معجم الکبیر، معجم الشیوخ) الغرض گلشنِ خانوادۂ نبوت کے اس معطر پھول کے بارے میں صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ پسر علیؓ اور جان فاطمہؓ مناقب و فضائل میں گویا مجمع البحرین اور حسن و جمال کا مرقع زیبا ہے۔ یہ وہ خصائص و فضائل اور مناقب و حقائق ہیں جو اُس لسان نبوت سے بیان ہورہے ہیں جس کی صداقت و حقانیت پر خلاق دوجہاں نے ’’وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی‘‘ کی مہر ثبت فرمائی ہے۔ حضرت شاہ نامدار امام حسینؓ کے حیات آفرین کردار کی شفافیت و پاکیزگی کا اندازہ کیجئے کہ اپنی تمام تر عظمتوں و رفعتوں کے باوجود جب حق کی حمایت اور متلاشیان حق کو بادۂ گلفام سے سرشار کرنے کا وقت آیا تو روح پرور کمالات، حوصلہ خیبر شگن، ہمت باطل افگن کے حامل اسی شہزادے نے اپنے اور اپنے جانثاروں کی جان کا نذرانہ پیش کرنا تو گوارا کیا لیکن مصلحت پسندی کو کسی صورت پسند نہ فرمایا بالفرض محال اگر آپؓ نرم رویہ اختیار بھی کرلیتے تو آپ کی سیرت طیبہ کی دلنوازیوں اور تعظیم و تکریم میں کوئی کمی آنے والی نہ تھی لیکن امت کا شیرازہ یقیناً بکھر جاتا۔ بچشم دیدہ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں آج ہمیں اپنے رتبے، عہدے، حسب اور نسب کا حد درجہ لحاظ ہے اور اسی کی حفاظت میں ہم ہر وقت مصلحت پسندی کو ترجیح دیتے ہیں جس کے سبب ہر برائی معاشرے میں برق رفتاری سے رائج ہوتی جارہی ہے۔
آج امت مرحومہ اسی روش کے باعث سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی بجائے ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتی جارہی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہونے کے باوجود تنزل و انحطاط کی وجہ جذبہ ایمانی کی کمی اور کردار کا گرتا ہوا معیار ہے۔ کردار حسینی کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تبہی صالح معاشرے کی تشکیل ممکن ہوگی۔ عشق و محبت حسینؓ کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم کردار حسینی کے سانچے میں ڈھل کر غیروں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن جائیں نہ کہ قابل عبرت۔ جس طرح آپؓ نے پُر فتن، پُر خطر اور پر آشوب دور میں فہم و فراست، صبر و استقامت ذوقِ شہادت کے ساتھ باطل قوتوں کو پسپا کیا اور انسانیت کو بامِ عروج تک پہنچایا بحیثیت غلامان حسینؓ ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم بھی ایمانی چٹان بنکر باطل کا مقابلہ کریں تاکہ اس کے قوت اثر سے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہوجائے، دنیوی و اخروی زندگی سنور جائے، ساری انسانیت اطمینان قلب کی دولت سے مالامال ہوجائے۔ ج
س طرح انسان شراب خوری میں بدمست ہوکر اچھے اور برے اعمال میں امتیاز کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے اسی طرح جب انسان حسن و دولت، تعلیم و قابلیت، خاندان و شرافت نیک نامی و شہرت، اقتدار و حکومت، تعصب و خصومت، اثر و رسوخ و قوت کے نشے میں مست اور غرق ہوجاتا ہے تو اسے یہ قطعی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کب،کہاں اور کیسے اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہے جو نہ صرف اس کی ذات کے لیے تباہ کن ہے بلکہ بسا اوقات سامنے والے کو ظلم و زیادتی، جہالت و ناخواندگی، چوری و ڈکیتی وغیرہ جیسی دیگر برائیوں میں ڈھکیلنے کا سبب بھی بن جاتا ہے گویا انسان اس روش سے خود کو بھی ہلاک کرلیتا ہے اور دوسروں کو بھی پریشان کردیتا ہے۔ ہماری زندگی میں پیش آنے والی ساری مصیبتیں ہمارے جرائم اور شامت اعمال کا خمیازہ ہے۔ دیکھیے آج ہم مادی طور پر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود مہنگائی، سوائن فلو، سونامی، لوٹ گھسوٹ، معاشی بحران، قتل و غارت گری، دہشت گردی، طوفان و قحط سالیکی تباہ کاری، آفات سماوی و ارضی، وبائی و مہلک امراض کی ہلاکت خیزی، غربت و مفلسی، ذلت و رسوائی سے متاثر ہیں اس میں بھی ہماری نافرمانیوں کا ثمرہ ہے۔ مادی وسائل آدمی کو مہذب و طاقتور تو بناسکتے ہیں لیکن اخلاقی اقدار آدمی کو انسانیت کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور تاریخ انسانی شاہد ہے جب بھی حق و باطل میں معرکہ آرائی ہوئی بالآخر کامیابی و سرخروئی انسانیت ہی کے حق میں آئی ہے۔ دنیا نے کئی ایک مادہ پرست کو فراموش کرچکی ہے لیکن جب بھی اہل حق کا ذکر آتا ہے تو ساری انسانیت ادب و احترام میں سرنگوں ہوجاتی ہے۔ جس کی بین دلیل واقعہ کربلا ہے۔ تقریباً چودہ صدیاں گزرچکی ہے لیکن آج تک انسانیت حضرت سیدنا امام حسینؓ کی حق کے لیے دی جانے والی قربانی کو فرماموش نہ کرسکی بلکہ آپؓ کے جذبہ ایثار و خلوص پر ساری انسانیت کو ناز ہے۔ دشمنوں و بدخواہوں اور بالخصوص یزید بزعم باطل یہ سمجھ رہا تھا کہ زہر آلود پروپگنڈہ، لرزہ خیر وگھنائونی سازشیں کرکے عظمت و رفعت حسینؓ کو آسانی سے پامال کردے گا لیکن آج خود اس کا اور اس کے حواریوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے معدوم ہوچکا ہے لیکن حضرت سیدنا امام حسینؓ کی شہادت کے المناک واقعہ پر ساری دیا رنج و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ہے۔
چار دانگ عالم میں آپؓ سید الشہداء کے لقب سے مشہور ہیں۔ ہر سو آپؓ کے مناقب رفیعہ اور اوصافِ جمیلہ کا چرچہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ انشاء اللہ العزیز تا قیام شمس و قمر پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہیگا۔ علامہ ابن خلدون اپنے شہرہ آفاق مقدمہ میں اپنے ساتھ پیش آئے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ان کے علاقہ میں ایک سیدزادہ رہا کرتے تھے جن پر لوگ بلاوجہ شب و ستم اور بہتان تراشی کیا کرتے تھے تو میں نے اس سید زادے کی حمایت کی تاکہ کل بروز قیامت شافع محشرﷺ کی حمایت مجھے مل جائے۔ جب ایک سید زادے کی تعظیم و توقیر کا یہ عالم ہے تو یقیناً منبع خیرات و برکات حضرت سیدنا امام حسینؓ جن پر سارے اہل بیت کو ناز ہو کاروان ملت اگر آپؓ کے کردار کے تابندہ نقوش کو اپنے لیے خضر راہ بنالیں یعنی اسوۃ حسینی پر قلب سلیم کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں تو سدرہ کی بلندیوں تک رسائی حاصل کرنا اور عقبی کی کامیابی تو یقینی ہے ہی دنیوی زندگی بھی جنت نشاں بن جائے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو نافرمان قوم اخلاقی انحطاط و گراوٹ کا پیکر بن جاتی ہے اس سے سیاسی قوت اور اقتدار چھین لیا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف وہی اقوام ترقی کے زینے و مدارج طے کرتی ہے جس میں اخلاق کی بلندی اور سیرت کی پختگی ہوتی ہے۔ آج وقت کا اہم تقاضہ یہی ہے کہ ہم سستی، کاہلی، بدکرداری اور بے راہ روی کے دلدل سے نکل کر جواں ہمتی، پامردی، بالغ نظری کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور فیضانِ کردار حسینی کو عام کرنے کے لیے سعیٔ مسلسل اور عمل پیہم میں مصروف و منہمک ہوجائیں تاکہ ہمارے اندر مستور ممکنہ قوتیں بیدار ہوجائیں، قوائے عمل کارکرد ہوجائیں اور ہم میں عزم و قوت کا وہ ملکہ پیدا ہوجائے جو ہمیں زندگی کے متلاطم سمندر میں غوطہ زنی کرکے انسانیت کے جواہر پارے چن لانے کا ہنر سکھا دے۔ چونکہ وہ لوگ ہرگز کامیابی و کامران ہو ہی نہیں سکتے جو ہر قسم کے علائق و آرام سے دست کش ہوکر زندگی کی گراں باریوں کی مشقتیں برداشت کرنے کے بجائے دنیوی منفعتوں کے حصول کے لیے گوشۂ عافیت میں پناہ لینے کو ترجیح دیتے ہوں۔ شمع اسلام کے پروانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اب ہم قولی دعوئوں کے خول سے نکل کر دعملی میدان میں آجائیں اور جذبۂ ایثار، جراتٔ و حرارت ایمانی کے ساتھ پیغامِ حسینی کو ہر سو عام کریں تاکہ صالح معاشرے تشکیل پاسکے جو صرف اور صرف ایمانی حرارت میں مضمر ہے۔
قرآن حکیم نے اس کی تصریح یوں بیان فرمائی ہے۔ ’’ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ ترجمہ:۔ اور نہ (تم) ہمت ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی سربلند رہوگے اگر تم سچے مومن ہو۔ علامہ جسٹس پیر کرم شاہ ازھری اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’ایمان کی قوت دنیا کی ساری مادی قوتوں سے زیادہ توانا ہے جس قوم کے افراد کے دلوں میں ایمان اور یقین کی شمع روشن ہوتی ہے دنیا کی کوئی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ مادی وسائل بھی اسی وقت کارگر ثابت ہوتے ہیں جب ان کو استعمال کرنے والا اپنے مقصدِ حیات پر محکم یقین رکھتا ہو۔ واقعہ کربلا اسی کی عملی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صاحب لولاکﷺ کے صدقہ و طفیل ہمیں بھی کردارِ حسینی پر عمل پیرا ہونے والا بنادے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسینﷺ۔.