سائنسدانوں نے ذیابیطس کی ایک پُراسرار اور مہلک قسم دریافت کی ہے اس بیماری کے متاثرہ افراد تشخیص کے بعد بمشکل ایک سال ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سائنسدانوں نے ذیابیطس کی ایک پُراسرار لیکن مہلک قسم دریافت کی ہے اس بیماری کے متاثرہ افراد تشخیص کے بعد بمشکل ایک سال ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ اس بیماری کو ناقص غذا سے متعلقہ مرض کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس سے ایشیائی ور صحارا کے جنوب میں واقع ممالک میں لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔
صحت سے متعلقہ ایک میگزین جرنل ڈائبیٹیز کیئر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ’لو بی ایم آئی ڈائبیٹیز‘ کے نام سے جانی جانے والی یہ بیماری عام طور پر پتلے اور غریب نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے جو بیماری کی تشخیص کے بعد بمشکل ایک سال ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ تاہم تحقیق کے حالیہ نتائج متاثرہ افراد کے لیے نئی علاج کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کم عمر اور پتلے ہونے کی وجہ سے عین ممکن ہے یہ افراد ذیابیطس ٹائپ ون سے متاثر ہوتے ہوں۔ تاہم محققین کی رائے کے مطابق انسولین کے انجیکشن عموماً ایسے مریضوں کے کسی کام کے نہیں ہوتے اور ممکنہ طور پر کم بلڈ شوگر ان کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
محقیقین کے مطابق ایسے مریضوں میں ٹائپ 2 ذیا بیطس بھی ظاہر نہیں ہوتی جس کا عام طور سے موٹاپے سے تعلق ہوتا ہے اور ڈاکٹر اس بیماری کے حوالے سے معلومات کے فقدان کی وجہ سے اس کے علاج کے متعلق غیر یقینی کی صورتحال میں ہیں۔
اس حوالے سے امریکا کے البرٹ آئنسٹائن کالج آف میڈیسن میں میڈیسن کی پروفیسر میریڈتھ ہاکنز کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ موجودہ سائنسی لٹریچر میں ناقص غذا سے متعلقہ ذیا بیطس کو سنبھالنے کے حوالے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ یہ مرض زیادہ آمدنی والی اقوام میں بہت نایاب ہے لیکن کم یا متوسط آمدنی والے 60 سے زائد ممالک میں یہ وجود رکھتی ہے۔