ایک تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا ہے کہ طویل اور سخت ذہنی سرگرمیاں ہمیں کیوں تھکا دیتی ہیں ۔
تحقیق کے مطابق گھنٹوں کا استغراق دماغ کے پری فرنٹل کورٹیکس کے حصے میں ممکنہ طور پر زہریلے فضلے کا سبب بنتا ہے۔
ان زہریلے مرکبات کے بننے کے نتیجے میں یہ انسان کا فیصلوں پر سے قابو ختم کردیتا ہے لہٰذا ذہنی تھکان کا شکار ہونے کی وجہ سے لوگ ایسے عمل کی جانب جاتے ہیں جو محنت طلب یا انتظار طلب نہیں ہوتے۔تھکان دماغ کو خود کو بچانے کے لیے کام کرنا چھوڑنے کو کہتی ہے۔
فرانس کی ایک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے میتھیاس پیسیگلیون کا کہنا تھا کہ ذی اثرنظریوں یہ بتاتے تھےکہ تھکان ایک طریقے کا دھوکا ہوتا ہے جو دماغ کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہم جو بھی کچھ کر رہے ہوں وہ کرنے سے ہمیں روکا جاسکے اور کسی اور اطمینان بخش سرگرمی کی جانب رخ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ گہری سوچ بچار کے کام کے نتیجے میں نقصان دہ مرکبات جمع ہوتے ہیں لہٰذا تھکان ایک اشارہ ہوتا ہے جو ہمیں کام کرنے سے روکتا ہے لیکن اس کا مقصد مختلف یعنی ہمارے دماغ کی فعالیت کو بچانا ہوتا ہے۔
محققین نے دو گروپوں کےلوگوں کے دماغ میں ہونے والے کیمیائی عمل کا پورے دن جائزہ لیا۔ ایک گروپ ان لوگوں کا تھا جن کو اپنی ملازمت کے کاموں میں زیادہ سوچنا پڑتا تھا اور دوسرا گروپ ان کا تھا جن کو سوچنے میں نسبتاً کم محنت کرنی پڑتی تھی۔
محققین نے سخت سوچ بچار کرنے والے گروپ کے لوگوں میں تھکن کی علامات دیکھیں۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کی آنکھوں کی پتلیاں بھی سُکڑ گئیں تھیں۔ان لوگوں نے ایسے کاموں کا انتخاب کیا جس میں محنت کم لے اور ان کا صلہ فوری ہی حاصل ہوجائے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان افراد کے دماغ کے پری فرنٹل کورٹیکس میں گلوٹیمیٹ نامی کیمیکل بھی زیادہ مقدار میں پایا گیا۔