بڑھاپے میں فالج کا پہلا حملہ مریض کو تھاکا ہوا اور مایوس کر دیتا ہے لیکن اگر اس موقع پر بزرگ اپنی ہمت استعمال کرتے ہوئے پرعزم رہیں تو نہ صرف بحالی میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے جسمانی افعال دوبارہ بہتر ہونے لگتے ہیں۔
امریکن نیورولوجیکل ایسوسی ایشن میں ایک تحقیق پوسٹر پیش کیا گیا جو یونیورسٹی آف پینسلوانیا کی ڈاکٹر کیلی سلون نے بنایا تھا۔ تحقیق میں دکھایا گیا کہ فالج کے بعد بعض مریض بہتر ہوجاتے ہیں اور کچھ مریض بحال نہیں ہوتے بلکہ مزید مفلوج ہوتے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر کیلی نے بتایا کہ طبی لٹریچر میں ملتا ہے کہ دل کے مریض اگر پرامید اور ڈپریشن سے دور رہیں تو وہ جلد ٹھیک ہونے لگتے ہیں اور عین یہی بات فالج پر بھی صادق آتی ہے۔
اس کے بعد ماہرین نے فالج کے مریضوں میں ڈپریشن اور امید یا عزم کا الگ الگ مطالعہ کیا۔ اس میں 50 سال سے زائد عمر کے 879 افراد پر غور کیا گیا جن پر پہلی مرتبہ فالج کا حملہ ہوا تھا۔ تمام مریضوں کو فالج کے بعد بحالی کے مراکز میں داخل کیا گیا تھا۔
اس دوران سوالنامے سے امید اور ناامیدی کو نوٹ کیا گیا۔ امید سے متعلق سادہ سوالات سے جائزہ لیا گیا کہ مریض اپنی بحالی کے متعلق کتنا پرعزم ہے جبکہ ناامیدی کو ’ڈپریشن کے رائج پیمانے‘ پر پرکھا گیا اور 16 سے زائد اسکور کو ناپا گیا۔ اس بنیاد پر مریضوں کو چار درجوں میں بانٹا گیا۔ یعنی ڈپریشن کے حامل پرامید، کسی ڈپریشن کے بغیر پرعزم، ڈپریشن اور ناامید اور ڈپریشن کے بغیر ناامیدی کے حامل افراد کے درجوں میں بانٹا گیا۔
پھر ماہرین نے فالج کے تین ماہ اور ایک سال بعد بحالی کے مرکز سے لوٹنے والے مریضوں میں عملی سرگرمی کا درجہ معلوم کیا جسے ’فنکشنل انڈیپینڈینس میژر‘ ( ایف آئی ایم) کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں عمر، جنس، غذائی عادات اور دیگر عوامل شامل کیے گئے تھے۔
معلوم ہوا کہ اگرچہ تمام مریضوں میں کچھ نہ کچھ بہتری تو ہوئی لیکن پرعزم، پرامید اور حوصلہ رکھنے والے افراد میں اس کی شرح زیادہ دیکھی گئی ہے۔ لیکن گروپ میں شامل ناامیدی اور ڈپریشن کے شکار مریضوں میں بہتر ہونے کی شرح بہت سست تھی۔
ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک سال بعد بھی ناامیدی کے منفی اثرات قائم رہے اور یوں پرامید افراد میں زیادہ بہتری دیکھنے میں آئی۔ اسی بنا پر ماہرین نے کہا ہے کہ فالج کے بعد ڈپریشن اور مایوسی سے دور رہیں اور امید و ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اس سے دماغی لچک بڑھتی ہے اور مریض اچھا ہوتا رہتا ہے۔