شیطانی، نفسانی اور دنیاوی خواہشات کو ترک کرنا ہی روحِ قربانی ہے

از :۔ ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
دین اسلام کے تمام احکامات مبنی بر حکمت ہیں جس میں مخلوق کی فلاح مضمر ہے۔ مثلاً قربانی جس کا حقیقی فلسفہ، حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ انسان فرزند و زن، مال و جاہ، عزیز و اقاریب، جاہ و منصب الغرض ہر چیز سے زیادہ اللہ تعالی سے محبت کرے، اس کے قلب و ذہن سے حرص و لالچنکل جائے، اس کے اندر سخاوت کی عادت اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوجائے ۔ قربانی کی روح کو وہی پاسکتا ہے جس کی قربانی خوف و خشیت اور خلوص و للہیت پر مبنی اور جو شیطانی، نفسانی اور دنیاوی خواہشات کو ہمیشہ حکم ربانی پر قربان کرنے پر آمادہ و تیار ہو۔ چونکہ مسلمانوں کی اکثریت قربانی کے عمل کو نمود و نمائش کا ذریعہ بنالیا ہے اسی لیے مسلمان قربانی کے فلسفہ و حکمت اور فوائد و منافع سے کماحقہ مستفید و مستیفض ہونے سے محروم ہیں۔ ظاہری طور پر جانور قربان کرنے سے قربانی کا مفہوم پورا نہیں ہوجاتا بلکہ قربانی کی روح یہ ہے کہ بندہ شیطانی مکر و فریب، نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذات کے مقابل اللہ اور اس کے حبیبؐ کے احکامات و ارشادات کو ترجیح دے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ چونکہ ہم روحِ قربانی کو پانے میں تقریباً ناکام ہوچکے ہیں اسی لیے ہم شیطان، نفس اور دنیاکی ایسی تعظیم اور بلا چون و چرا پیروی کرتے ہیں جیسے محبوبان خدا رب کائنات کی تعظیم اور اس کے احکامات کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں۔

بزرگان دین خالق کو بالذات محبوب اور مخلوق کو بالعرض محبوب رکھتے ہیں جبکہ ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے نتیجتاً ہم سے ایسے اعمال سرزد ہورہے ہیں جو حدِ آدمیت اور دائرہ انسانیت سے باہر ہیں۔ عمارت اسلام کی بنیاد ارکانِ اسلام یعنی شہادت، نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج پر ہے۔ عقیدہ توحید انسان کو اطمینان قلب عطا کرتا ہے، نماز انسان میں عجز و انکساری پیدا کرتی ہے، روزہ انسان کو نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کے دل سے دنیا کی محبت کو نکالتی ہے اور حج انسان میں اخوت و بھائی چارگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔لیکن ایک طائرانہ نظر مسلم معاشرے پر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ارکان اسلام پر عمل آوری کے باوجود مسلمان ارکان اسلام کی حکمتوں ، مصلحتوں ، فوائداور منافع سے تقریباً محروم ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ارکان اسلام کی بنیاد یعنی جذبہ قربانی کو تقریباً فراموش کردیا ہے جس کے باعث ہم انسانیت کے بنیادی احساس سے عاری ہوچکے ہیں، ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں اخلاقی بگاڑ آچکا ہے، جدیدیت کے نام پر ہم اور ہماری نئی نسل بے راہ روی اور بے ہودگی کی نذر ہوچکی ہے۔

ارکانِ اسلام کی روح اور تعمیر شخصیت و کردار سازی کی بنیاد جذبہ قربانی ہے جب تک ہماری زندگی ایثار و قربانی سے عبارت نہ ہوگی ہم ارکان ِ اسلام کی حکمتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے اور اسلامی تعلیمات کے تمام مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ ایمان و عقیدہ میں پختگی اسی وقت آئیگی جب ہم ہر طرح کے خوف و خطر کو قربان دیں گے، کردار میں عاجزی و انکساری اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم ہر طرح کے غرور و تکبر کو قربان کردیں گے، تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور پاکیزگیٔ روح کی نعمتوں کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب ہم شیطانی ،نفسانی اور دنیاوی خواہشات کو قربان کردیں گے، دنیا کی محبت ہمارے دل سے اسی وقت نکلے گی جب ہم ہرعزیز ترین شئی کو راہ خدا میں قربان کردیں گے اور ہم میں باہمی الفت و محبت اسی وقت پروان چڑھے گی جب ہم ہر طرح کے تعصب و نفرت کو قربان کردیں گے ۔ المختصر اپنے مزاج اور ترجیحات پر قرآنی مزاج و ترجیحات کو ترجیح دینا ہی قربانی کی روح ہے۔ شریعت مطہرہ نے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا ہے یعنی ایک حصہ اپنے لیے ، ایک حصہ اپنے عزیز و اقاریب کے لیے اور ایک حصہ غرباء و مساکین کے لیے۔ یہ درحقیقت اللہ کی راہ میں اپنے محبوب ترین چیز قربان کرنے کا ایک تربیتی نظام ہے جو انسان کے ضمیر کو پاک، خیال کو بلند اور ذوق کو لطیف بنادیتا ہے۔

بخاری و مسلم کی روایت میں مذکور ہے کہ حضرت سیدنا ابو طلحہ انصاریؓ ایک مرتبہ مرقع ہر خوبی و زیبائیؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ مجھے تمام جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب ، مرغوب اور عزیز باغ ’بیرحائ‘ ہے آپؐ گواہ رہیں کہ یہ اللہ تعالی کے لیے صدقہ ہے۔ حضورؐ نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دے دو۔ اسی جذبہ ایثار و قربانی کے ثمرات تھے کہ اس دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلم معاشرے میں زکوٰہ و صدقات لینے والے بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے۔ اگر مسلمان اس تربیت کو زندگی کا حصہ بنالیں اور انعامات و احسانات رب کائنات پر بطور شکر ہر ماہ اپنی محبوب ترین چیز یعنی آمدنی کو اسی طرح تقسیم کریں یا کم از کم آمدنی کا دس فیصد حصہ مستحق عزیز و اقاریب اور محتاجوں کی تعلیم و معاشی خوشحالی کے لیے خرچ کریں تو ایک طرف صاحب مال کی بخل کی عادت زائل ہوجائے گی ، وہ نیکی میں درجہ کمال کو پہنچے گا، اسراف و دیگر مالی فتنوں سے وہ محفوظ و مامون ہوجائے گا، اس کا شمار زمرۂ اخیار و ابرابر میں ہوگا اور اس کی دنیا و آخرت سنوار جائیگی تو دوسری طرف مسلم معاشرے سے تعلیمی پسماندگی اور اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اگر مسلمان ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو امت مسلمہ کے دیگر مسائل از خود حل ہوجائیں گے۔

جب مسائل سے پاک مسلم معاشرہ تشکیل پاجائے گا اور اس کی خوبی و منفعت کا کائنات کے گوشہ گوشہ میں چرچا ہوگا تو عین ممکن ہے کہ اغیار بھی اسلام کی طرف مائل و راغب ہوجائیں اور اللہ تعالی ان کے قلوب و اذہان کو نور ایمانی سے روشن و منور فرمادے اس طرح ہم تبلیغ اسلام کے عظیم ذمہ داری سے سبکدوش ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ آج کا مسلمان قربانی کی روح کو سمجھنے سے اس لیے بھی قاصر ہے چونکہ وہ شیطانی وساوس، نفسانی خواہشات اور دنیا پرستی کا شکار ہوچکا ہے جبکہ اللہ تعالی نے شیطان کو انسان کا کھلا اور ازلی دشمن قرار دیکر اس کی اطاعت و عبادت کرنے سے منع کیا فرمایا، اللہ تعالی نے ہمیں نفس کی شرارتوں سے آگاہ کردیا کہ سرکش نفس انسان کو گناہ کے خارزاروں میں بے رحمی سے گھسیٹتا ہے، نفس غدار کی شرانگیزیوں سے انسان کی عصمت ، عفت اور قبائے شرافت تار تار ہوجاتی ہے، اللہ تعالی نے دنیاوی متاع کو قلیل کہہ کر اس کی ناپائیداری اور فناپذیر آسائشوں سے ہمیں مطلع فرمادیا ہے۔ اتنے تاکیدی احکامات کے باوجود اگر مسلمان ہوشمندی سے کام نہ لیں گے اور دنیا میں حاصل ہونے الے انعامات و احسانات خداوندی کو آخرت کی ابدی زندگی اور اس کے لا زوال انعامات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنائیں گے تو ہم منزل مقصود سے بھٹک جائیں گے اور گمراہی و انجام بد ہمارا مقدر ہوگا ۔

دنیاو آخرت میں فلاح و کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیاکی تمام ناپائیدار خوشیوں و آسائشوں کو خلوص و للہیت کے ساتھ آخرت کی ابدی راحتوں و مسرتوں پر قربان کردیں۔ ہر سال عید الاضحی میں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں قربانی دیتے ہیں اس کے باوجود مذکورہ بالا قربانی کے مقاصد کے حصول میں امت مسلمہ ناکام کیوں ہے؟ اگر اس کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں اکثر لوگ قربانی خلوص و للہیت سے نہیں بلکہ ریا و نمود کے لیے کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری قربانی نافع و مفید ہونے کی بجائے اکارت جارہی ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہود و نصاری کو ریاست بہت محبوب تھی جس کو کسی بھی قیمت پر قربان کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے محروم ہوگیے۔ اگر نبی آخر الزماںؐ سے متعلق حقائق سے واقف یہود و نصاری ریاست کی محبت کو قربان کرکے رسول رحمتؐ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرلیتے تو نہ صرف دولت ایمان سے سرفراز ہوجاتے بلکہ ان کا شمار صحابہ کی اس عظیم جماعت میں ہوتا جسے جنت کی فرحت انگیز ابدی مسرتوں کے علاوہ ایک اعلی ترین انعام بخشا جائے گا یعنی اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہوجائیں گے۔

صحابہ کرام سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریق کفار و منافقین قرار پاتا ہے اور صحابہ کرام کی مقدس جماعت سے پر تبرا بازی کرنے باعث وبال و خسران ہے۔ یہود و نصاری صحابہ کرام کے ان تمام فضائل و کمالات سے محروم ہونے کی ایک اہم وجہ یہ رہی کہ ان کے اندر جذبہ قربانی کا فقدان تھا اور انہیں ریاست بہت عزیز تھی ۔اسی کی نحوست ہے کہ شقاوت و بدبختی میں مبتلا ان یہود و نصاری کا شمار شر البریہ میں ہوتا ہے۔ چونکہ آج کے مسلمان کے پاس بھی مال و متاع، جسم و جان اور جاہ و منصب بہت زیادہ عزیز ہوگیے ہیں اسی لیے اس کے قربانی کا جذبہ ظاہری طور پر جانور ذبح کرنے تک محدود ہوگیا ہے اور وہ قربانی کے لیے مقاصد و فوائد سے محروم ہورہا ہے جس کے منفی اثرات پورے انسانی معاشرے پر پڑ ہے ہیں۔ اگر مسلمان واقعتاً چاہتے ہیں کہ ان کا شمار خیر البریہ میں ہوجائے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ نمود و نمائش کی بجائے خلوص و للہیت کے ساتھ قربانی کریں اور جذبہ قربانی کو زندگی کے ہر فعل و عمل میں شامل کریں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں